دنیا کے مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے خصوصی نمائندوں پرمشتمل دو روزہ کانفرنس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر سے شروع ہو گئی ہے،تاہم اس کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام اس کانفرنس کامقصد افغانستان کو درپیش چیلنجزکاحل تلاش کرنا ہے۔ کانفرنس کے شرکا طالبان حکومت کی جانب سے خواتین پرعائد مختلف پابندیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی بات چیت کریں گے۔
کانفرنس کی تفصیلات اگرچہ میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں لیکن اس کے اختتام پر منگل کو اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
اس کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ اتوار کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھاکہ "ایسے تمام اقدامات جو خواتین کے بنیادی حقوق اور ان کے کام کرنے میں رکاوٹ کا باعث بنیں، ان کا اثر افغانستان میں بسنے والے لاکھوں افراد پر ہو گا جنہیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ افغان شہریوں کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے اور اس امداد کی فراہمی میں خواتین کا کلیدی کردار ہے۔"
ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کو درپیش چیلنجز پر اس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے ، کابل میں خواتین کے ایک گروپ نے احتجاج کرتے ہوئےدوحہ کانفرنس کے شرکا سےطالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بعض خواتین نے ہفتے کو کابل میں مارچ کی اور طالبان حکومت کےخلاف نعرے لگائے۔ خواتین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر'’افغان عوام طالبان کے یرغمال‘، اور ’ہم لڑیں گے، ہم مریں گے، ہم اپنا حق لیں گے‘ جیسے نعرے تحریر تھے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تاحال کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
حال ہی میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ذرائع ابلاغ میں اس وقت چہ می گوئیاں ہونے لگی تھیں جب گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے پرنسٹن یونیورسٹی میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں کچھ شرائط کے ساتھ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر غور ہو سکتا ہے۔
بعدازاں اس خبر کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی گئی تھی کہ دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں طالبان کو تسلیم کرنا ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
نیلوفر سہرابی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کی مخالف ہیں۔ وہ خود تو کابل میں ہونے والے خواتین کے احتجاج میں شریک نہیں تھیں البتہ ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت مشکل صورتِ حال سے گزر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین کے حالات دیکھ کر وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی کا شکار ہو رہی ہیں اور انہیں دور دور تک کوئی راہ فرار بھی نظر نہیں آتی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے احتجاج میں شرکت کرنا چاہتی تھیں تاکہ ان سے اظہارِ یکجہتی کیا جائے لیکن طالبان کی جانب سے خواتین کے حالیہ جلوسوں میں ہوائی فائرنگ اور ان کی گرفتاریوں کے باعث انہیں والدین نے شرکت کی اجازت نہیں دی۔
SEE ALSO: ’یہ ہمارا ثقافتی معاملہ ہے‘: طالبان نے اقوام متحدہ کی مذمتی قرار داد مسترد کر دییاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت خواتین کی تعلیم، نجی اداروں میں ملازمت، بغیر محرم کے ستر کلومیٹر سے زائد سفر پر پابندی اور حتی کہ اکیلے پارک جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔
افغانستان کو درپیش چیلنجز پر قطر میں جاری کانفرنس میں اگرچہ طالبان قیادت کو دعوت نہیں دی گئی تاہم افغان خواتین نے اس کانفرنس پر بھی تنقید کی ہے۔
افغان پارلیمان کی سابق لیڈر شکریہ بارکزئی کہتی ہیں "یہ کس قسم کی کانفرنس ہے جس میں بات تو افغانستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی ہوگی لیکن اس میں کسی ایک بھی افغان خاتون کو مدعو نہیں کیا گیا۔"
'حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی'
انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والی کانفرنس میں وہ تمام ملک شرکت کر رہے ہیں جن کی رائے کو افغانستان کے مسائل کے حل کے لیےفوقیت دی جاتی تھی۔ ان سے بھی پوچھا جائے کہ جب وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں طالبان اب بدل گئے ہیں اور اگر انہیں کسی بھی سطح پر اختیار ملا تو وہ پہلے کی نسبت زیادہ روشن خیال، تعلیم، روزگار اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے۔ تو ان سے پوچھنا حق بنتا ہے کہ انہوں نے یہ تصور کن اندازوں کی بنیاد پر قائم کیا تھا؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتےہوئے شکریہ بارکزئی نےکہاکہ گزشتہ بیس ماہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو افغانستان کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے۔
وہ کہتی ہیں، " افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی سر فہرست ہے، ملک میں روزگار کے مواقع نہیں اور امن و امان کی صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے جب کہ لوگوں کو مذہبی عقائد کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔"
فاطمہ فیصل کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے اور وہ کابل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے دباؤ کے باعث اگرچہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا معاملہ قطر کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی برادری کی سوچ افغانستان میں رہنے والے باشندوں سے کس قدر مختلف ہے۔اور خواتین کی آزادی، تعلیم، روزگار اور انسانی حقوق کے حوالے سےان کے پاس معلومات کا کس قدر فقدان ہے۔
ان کے خیال میں طالبان قیادت شاید مستقبل میں خواتین کے روزگار کے حوالے سے بعض پیشوں جیسے ٹیچنگ اور طب میں خواتین کو ملازمت کی اجازت دینے پر راضی ہو جائے لیکن اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ صرف یہی وہ دو پیشے نہیں تھے جہاں خواتین کام کر رہی تھیں۔
فاطمہ کہتی ہیں زمانہ بہت بدل چکا ہے، خواتین سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، پولیس، فوج اور سیاست میں بھی حصہ لیتی تھیں اور اب بھی وہ ان تمام شعبوں میں کام کرنے کرنے کو اپنا بنیادی حق تصور کرتی ہیں۔