|
اقوام متحدہ نے جمعے کو طالبان رہنماؤں کو مطلع کیا کہ عالمی ادارہ افغانستان پر ایک اہم دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے تمام فریق قبول کرلیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ بات متقی کے دفتر نے ملاقات کے بعد جاری ایک بیان میں کہی۔
بیان کے مطابق دونوں فریقوں نے 30 جون کو اقوام متحدہ کی طرف سے بلائی جانے والی کانفرنس کے لیے ،جس کی میزبانی قطرکرے گا،"تفصیلی نکتہ نظر اور ضروری ہم آہنگی پر تبادلہ خیال کیا"
یہ اجتماع، جسے "دوحہ III" کہا گیا ہے، اس موضوع پر قطر کے دارالحکومت میں اس کے بعد سے ہونے والا تیسرا اجتماع ہوگا، جب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچیوں کے ساتھ مل کر طالبان کی حکمرانی والے ملک کے لیے ، جسے شدید انسانی، معاشی اور انسانی حقوق کے بحران کا سامنا ہے،ایک موثر عالمی نقطہ نظر کو فروغ دینے کا لیے سلسلہ شروع کیا ہے ۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، " شروع میں ، مسز روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ ان کی ٹیم دوحہ کے تیسرے اجلاس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ایک ایسا ایجنڈا ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہے جسے تمام فریق تسلیم کر سکیں۔"
متقی کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے کانفرنس کے کسی ایسے ایجنڈے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے "جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو " کہا کہ وہ "معاملے کے حوالے سے متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘‘
اقوام متحدہ نے طالبان کے چیف ڈپلومیٹ کے ساتھ اپنی ایلچی کی ملاقات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اوتن بائیفا کا افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ رابطہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے لیے ان مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ دوحہ اجلاس کی میز پر افغان خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنائے اور بات چیت خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پرمرکوز ہو ۔
SEE ALSO: عالمی برادری طالبان سے خواتین کے حقوق سلب کرنے پر جواب دہی کرے: ہیومن رائٹس واچانسانی حقوق کے کارکن طالبان کو دوحہ اجلاس میں مدعو کرنے اور مبینہ طور پر انہیں تقریب میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی وجہ سے اقوام متحدہ پر تنقید کر چکے ہیں ۔ ڈی فیکٹو افغان حکام نے دوحہ کے پہلے دو اجتماعات میں یہ کہتے ہوئے شرکت نہیں کی تھی کہ اقوام متحدہ ایسا کرنے کے لیے ان کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ .
طالبان نے گزشتہ ماہ کے آخر میں غیر رسمی طور پر دوحہ میں 30 جون کو ہونے والی بات چیت میں شامل ہونے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
SEE ALSO: افغان خواتین پر حجاب کے نفاذ میں کمی دیکھی گئی ہے:اقوام متحدہجمعرات کو ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت ایک درجن کے قریب حقوق کی تنظیموں نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور رکن ممالک کو ایک خط بھیجا جس میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا کہ دوحہ میں طالبان کی شرکت افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی قیمت پر کی جا رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، حیدر بار نے وی او اے کو بتایا کہ خط میں کئی خدشات کو اجاگر کیا گیا ہے، جن میں یہ رپورٹس بھی شامل ہیں کہ کانفرنس میں خواتین کے حقوق نہ تو ایجنڈے میں ہوں گے اور نہ ہی ان کی مکمل نمائندگی ہو گی۔
انہوں نے کہاکہ طالبان کو کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی اقوام متحدہ کی کوشش افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کی ادارے کی بنیادی ذمہ داری سے براہ راست متصادم ہے۔
SEE ALSO: طالبان نے خواتین پر محرم کے بغیر باہر نکلنے پر پابندیاں بڑھا دیں، اقوامِ متحدہاقوام متحدہ کے حکام نے طالبان کو مدعو کرنے اور ان کے ساتھ رابطہ کاری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ "وہ افغانستان میں ڈی فیکٹو حکام ہیں" اور انہوں نے اس چیز کو اجاگر کیا کہ عالمی ادارہ کابل پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل زور دے رہا ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے کسی بھی بیرونی ملک نے طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ امریکی قیادت میں نیٹو کے تمام فوجی دو دہائیوں کی طویل موجودگی کے بعد ملک سے واپس چلے گئے تھے۔
طالبان نے اپنی سخت تعبیر کے مطابق خواتین کے تعلیم کے حق اور عوامی زندگی پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔