اقوامِ متحدہ کی افغانستان میں اعلیٰ ترین سفارت کار ڈیبورا لائنز نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کو آگاہ کرتے ہوئے ڈیبورا لائنز نے کہا ہے کہ داعش افغانستان میں عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی موجودگی کو بڑھانے میں مصروف ہے۔
شدت پسند تنظیم داعش خود کو ’الدولة الاسلامیہ خراسان‘ کا نام دیتی ہے جب کہ اس کو عالمی سطح پر ’اسلامک اسٹیٹ خراسان پروئنس‘ (آئی ایس کے پی) کا نام دیا جاتا ہے۔
سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں ڈیبورا لائنز کا کہنا تھا کہ پہلے داعش چند صوبوں اور دارالحکومت کابل میں محدود طور پر موجود تھی۔ البتہ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اس کی رسائی تمام صوبوں تک ہو گئی ہے اور اس کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں ہونے والے رواں برس 334 حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے جب کہ گزشتہ برس اس کے حملوں کی تعداد صرف 60 تھی۔ داعش نے بیشتر حملوں میں شیعہ برادری کو نشانہ بنایا ہے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ داعش کے خلاف ایک منظم لڑائی لڑنے پر زور دے رہے ہیں لیکن اس مہم کے دوران ماورائے عدالت گرفتاریوں اور اموات کے خدشات ہیں۔ اس لیے عالمی برادری کی بہت زیادہ توجہ درکار ہے۔
اگست کے وسط میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور اسی ماہ کے آخر میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان سے انخلا مکمل کیا تھا۔ غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی شدت پسند تنظیم داعش کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کے فوجی حکام کئی ماہ سے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں کمزور انتظامی معاملات کی صورت میں شدت پسند تنظیمیں داعش اور القاعدہ خود کو یہاں منظم کر سکتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کے حوالے سے ڈیبورا لائنز کا کہنا تھا کہ ان سے رابطہ عمومی طور پر مؤثر اور تعمیری رہتا ہے۔ طالبان نے اقوامِ متحدہ کو یقین دہائی کرائی ہے کہ وہ اس کی افغانستان میں موجودگی اور عوام کی معاونت کے خواہاں ہیں۔
طالبان برسرِ اقتدار آنے سے قبل بھی افغانستان انسانی بحران کا شکار تھا۔ دو دہائیوں پر محیط مسلح تنازعے، قحط سالی اور بدعنوانی سے لاکھوں لوگ غربت میں زندگی گزارنے اور نقل مکانی پر مجبور تھے۔
افغانستان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر بیرونی امداد پر مشتمل ہے۔ البتہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امداد بند ہو گئی ہے کیوں کہ بین الاقوامی برادری طالبان کی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان کی تین کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے دو کروڑ 30 لاکھ آبادی کو معاونت درکار ہے۔
سیکیورٹی کونسل کو آگاہ کرتے ہوئے ڈیبورا لائنز کا کہنا تھا کہ افغانستان انسانی بحران کے دہانے پر ہے۔ البتہ اس سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے افغانستان کے مالی ذرائع پر بین الاقوامی پابندی ختم کرنے کے حوالے سے واضح طور پر کچھ نہیں کہا۔ البتہ انہوں نے افغانستان میں آنے والی بدتریج مالی ابتری کی نشان دہی کی۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان روس اور چین نے افغانستان کے بین الاقوامی سطح پر موجود منجمد مالی ذرائع کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان کے افغانستان میں اقتدار کو تین ماہ ہونے والے ہیں البتہ کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں بھی افغانستان کے مندوب غلام اسحٰق زئی گزشتہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
غلام اسحٰق زئی نے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ افغانستان میں صورتِ حال انتہائی خراب ہے۔ نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی سے بچنے کے لیے ایک جامع حکومت ضروری ہے۔ جب کہ اس سے غیر ملکی عناصر کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکا جا سکے گا۔
سیکیورٹی کونسل کے اجلاس سے افغانستان کے پڑوسی ممالک ایران، تاجکستان اور پاکستان کے مندوبین نے بھی اظہارِ خیال کیا۔
پاکستان کے مطابق افغانستان کی نئی انتظامیہ بین الاقوامی برادری سے مثبت انداز میں رابطے میں ہے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کے مطابق اگست کے وسط میں جو ڈراؤنے خواب کا اندیشہ تھا اس طرح نہیں ہوا۔ افغانستان میں کسی بھی بڑے پیمانے پر تشدد یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کی صورتِ حال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ لڑکیوں کے اسکول کھول دیے گئے ہیں۔