دنیا اس وقت بےچینی سے منتظر ہے کہ جمعے کو 2023 کے امن کے نوبیل انعام کے لیے کس کے نام کا اعلان ہوتا ہے۔یہ انعام کس کو ملے گا یہ تو اسی دن معلوم ہو گا۔ لیکن اس میں افغانستان کی خواتین کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔
امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد افراد کے نام صیغہ راز میں ہیں۔ لیکن بعض رپورٹس کے مطابق خواتین کے حقوق کی علم بردار ایک افغان نژاد امریکی خاتون محبوبہ سراج کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
ناروے کے پیس انسٹیٹیوٹ نے گزشتہ ہفتے اپنے ڈائریکٹر کے حوالے سے انعام کے لیے پانچ امیدواروں کے نام بتائے تھے جن میں محبوبہ سراج اور ایران کی انسانی حقوق کی ایک کارکن نرگس محمدی دونوں شامل ہیں۔
محبوبہ سراج کی عمر لگ بھگ 75 برس ہے اور وہ طبی وجوہات کی وجہ سے کیلی فورنیا میں ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محبوبہ سراج کا کہنا تھا کہ اگر ان کو یہ باوقار انعام ملتا ہے تو افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کو تقویت ملے گی۔
محبوبہ سراج نے مزید کہا کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنا خطرناک ہے۔ لیکن خواتین کے لیے بات کرنے کے لیے کسی کا وہاں ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان تمام آوازوں کو خاموش نہیں کر سکتے - اگرچہ وہ کوشش کر سکتے ہیں لیکن کسی کو ملک کے اندر افغان خواتین کے لیے بات کرنی ہوگی۔
ان کے بقول وہ جلد ہی افغانستان واپس جائیں گی جہاں وہ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم چلاتی ہیں جو خواتین کی مدد کرتی ہے۔
SEE ALSO: ایشین گیمزمیں افغان خواتین کی والی بال ٹیم پہنچی کیسے؟محبوبہ سراج کی امیدوار تو ہیں لیکن ان کے حوالے سے کئی تنازعات بھی ہیں۔گزشتہ صدی میں افغانستان میں قائم رہنے والی بادشاہت سے ان کے تعلق نے ان کو نامزد کرنے پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔
انکا شاہی نسب 1978 میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کی تبدیلی کے دوران ان کی قید کا سبب بھی بنا تھا جس کے بعد ان کو امریکہ منتقلہونا پڑا تھا۔ وہ 2003 تک امریکہ میں رہیں پھر اپنے آبائی وطن افغانستان واپس لوٹ آئیں۔
طالبان میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے خواتین کے حقوق غصب کیے ہیں اور خواتین کو نوکری، تعلیم اور سیاسی نمائندگی سمیت بیشتر انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق طالبان حکومت اپنی زن بیزار حکمرانی کے ایک حصے کے طور پر خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو حراست میں رکھتی ہے۔ تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور انہیں خاموش کراتی ہے۔
دوسری جانب طالبان ایسی تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: طالبان نے مبینہ طور پر 100طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دبئی جانے سے روک دیاطالبان کے 2021 کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بہت سی ممتاز افغان خواتین، جنہوں نے سابقہ افغان حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر کام کیا تھا، خوف کے سبب ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں۔
بیرون ملک مقیم بعض افغان خواتین طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف کارروائی کے لیے مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
اسیلا وردک، ایک سابق افغان سفارت کار اور افغانستان پر خواتین کے فورم کی رکن ہیں، انہوں نے گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہم ہمدردی کے خالی خولی بیانات سے تھک چکے ہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کے اندر خواتین کی مدد کے لیے مزید بامعنی اقدامات کرے۔
SEE ALSO: افغانستان میں خواتین کی خودکشیوں میں ’پریشان کن اضافہ‘: برطانوی اخباروردک نےوائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ محبوبہ سراج نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے اور وہ اب بھی کابل میں پناہ گاہ چلا رہی ہیں
ان کے بقول محبوبہ سراج خواتین کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوبل انعام افغان خواتین کو قوت بخشے گا اور متاثر کرے گا۔
طالبان نے برسرِ اقتدار آتے ہی اگرچہ سابق حکومتی اہلکاروں سمیت تمام افغانوں کو یہ وعدہ کرتے ہوئے وطن واپس آنے کی دعوت دی تھی کہ کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا، جیسے کہ محبوبہ سراج ہیں، کس طرح استقبال کرے گی۔