امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے پاکستانی حکومت کے سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد و ضوابط پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات اظہار رائے کی آزادی اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے دھچکا ہو سکتے ہیں۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں جنوبی ایشیا کے امور کے لیے امریکہ کی اعلیٰ سفارت کار کا کہنا تھا کہ ایسے متحرک شعبے کو دبانا بدقسمی ہو گی۔ اس سے پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔
ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ اس معاملے پر شراکت داروں سے بات چیت کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قانون کی منظوری دے تھی۔ جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانہ ہو گا۔
حکومت کے اس اقدام پر مختلف طبقات کی طرف سے تنقید کی گئی تھی۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے حکومت کو مذہبی منافرت اور قومی مفاد کے نام پر آزادی اظہار کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئے حکومتی قواعد پر سخت ردِ عمل کے باوجود ابتدا میں حکومتی وزراء نے اس اقدام کے دفاع میں بیانات دیے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا۔
تاہم محتلف حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے نئے قواعد پر تنقید کے بعد اب حکومت نے اس پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا قواعد کا ابھی اطلاق نہیں ہوا بلکہ اس حوالے سے کابینہ نے صرف رولز کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا قواعد پر اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے نوٹس لیا ہے۔ فریقین سے سے مشاورت کے بعد سوشل میڈیا کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے مجوزہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم مخالفت کے باوجود وفاقی کابینہ نے اس کے منظوری دے دی تھی۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینل کی کمر توڑنے کی کوشش کے بعد حکومت اب سوشل میڈیا قواعد کے ذریعے لوگوں سے واٹس ایپ اور ٹوئٹر پر احتجاج کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو شاید اس اقدام کے نتیجے میں عالمی اور مقامی سطح پر سامنے آنے والے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا اسی بناء پر عمران خان کو اب یوٹرن لینا پڑ رہا ہے۔
سوشل میڈیا قواعد ہیں کیا؟
سوشل میڈیا کے نئے قواعد کو 'الیکٹرانک کرائمز ایکٹ' کا حصہ بنا دیا گیا ہے جو گزشتہ دور حکومت میں منظور کیا گیا تھا۔ ان قواعد کے تحت قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ ادارے کو قابل اعتراض مواد پر کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔
نئے قواعد کے تحت رابطے کی تمام سماجی ویب سائٹس کو چھ ماہ میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رابطہ افسر بھی تعینات کرنا ہو گا۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بھی بنانا ہوں گے۔
SEE ALSO: سوشل میڈیا ریگولیشن سے کون متاثر ہو گا؟سوشل میڈیا صارفین کو قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے خلاف بات کرنے پر بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور تمام کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں، بشمول میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشییٹوز سمیت دیگر اداروں نے بھی سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔
ان تنظیموں نے خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا کہ ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنا پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی پالیسی عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے آنی چاہیے۔