امریکہ اور چین کے موجودہ تعلقات کے تناظر میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کئی معاملات پر امریکہ کو شمالی کوریا کے ذریعے چیلنج کرنے کی حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔ ان میں امریکہ کی جزیرہ نما کوریا کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاملہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن کہتے ہیں کہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کےتناظر میں چین شمالی کوریا کو پہلے سے کہیں زیادہ موثر آلہ کار سمجھتا ہے۔
مثال کے طور پر،بقول ان کے،اگر امریکہ چین سے کہتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف اضافی پابندیاں لگانے میں مدد دے تو امکان غالب ہے کہ چین اس بات کو ماننے سے انکار کردے گا اور بیجنگ یہ چاہے گا کہ امریکہ اس معاملے پر تعاون کے بدلے چین کے ساتھ دوسرے شعبوں میں تعاون کرے۔
محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار ایونز ریورے، جو شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ "امریکہ اور چین کے تعلقات میں خرابی کی وجہ سے چین میں کچھ لوگ شمالی کوریا کو اسٹریٹیجک اثاثہ سمجھتے ہیں، کیونکہ چین کی طرح شمالی کوریا بھی خطے میں امریکہ کی عسکری موجودگی کا مخالف ہے۔ وہ ایسا اس بات کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کی نیکولیئر سرگرمیاں چین کو پریشان رکھتی ہے''۔
ریویرے کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین میں مسابقت کی دوڑ مزید آگے جانے کے ساتھ ساتھ ایسی سوچ کا مستقبل میں جاری رہنے کا امکان زیادہ رہے گا۔
پینٹگان کی اس ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین،شمالی کوریا کی طرح، اپنی سرحد کے قریب امریکی افواج کی عدم موجودگی کی صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن میں قائم ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایشیا پیسیفک سیکیورٹی کے سربراہ پیٹرک کرونن کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ بیجنگ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ''ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ امر چین کے لیے خوشی کا باعث ہے کہ وہ شمالی کوریا کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ سے توجہ ہٹا سکتا ہے اور امریکہ کو کئی چیلنجز میں الجھائے رکھ سکتا ہے''۔
وائس آف امریکہ نے اس رپورٹ کے لیے واشنگٹن میں چین کے سفارت خانے کو چین کے شمالی کوریا سے تعلقات اور جزیرہ نما کوریا کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک کرنے کے متعلق سوالات ای میل کیے ہیں۔ لیکن سفارت خانے کی طرف سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
امریکہ اور چین میں عداوت کیا ہے؟
جیسے جیسے چین اپنے عالمی اثر و رسوخ کو پھیلا رہا ہے امریکہ اور چین کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
پینٹگان کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ امریکہ اور دیگر ممالک سے ایسے شعبوں میں جہاں اس کےمفادات متصادم ہوتے ہیں، ٹکر لینے کے لیے تیار ہے۔
امریکہ جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوشش کر نے کے ساتھ،وہ انڈو پیسیفک کے علاقے میں چین کے فوجی دعوے کا مقابلہ کررہا ہے، ان کے علاوہ بیجنگ سے عالمی سطح پر ہونے والی سپلائی کو الگ کرنے کی کوشش، اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کا تحفظ اس کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کو اپنے ملکوں کے رہنماوں کے طور پر اپنی پہلی 'ون آن ون' ورچوئل ملاقات کی۔
وائٹ ہاوس نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کی پیچیدہ نوعیت اور ذمہ داری سے مسابقت کا انتظام کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا،" تاکہ "اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مقابلہ تنازعہ کی طرف نہ جائے"۔
دونوں رہنماوں نے شمالی کوریا سمیت اہم چلینجز پر بھی بات چیت کی۔
اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے، ماہر ریورے کہتے ہیں کہ انہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اپنے عزم کو واضح کیا ہوگا۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ شی نے دوسرے شعبوں میں امریکی مراعات کے بدلے میں شمالی کوریا کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی ہوگی۔ چین کی طرف سے ماضی میں دیے گئے بیانات میں 'کچھ لو کچھ دو' کی بات کی گئی تھی، لیکن اب واشنگٹن اس قسم کی بات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھے گا۔
بائیڈن اور ژی کی ورچوئل میٹنگ کے چند گھنٹے بعد وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا کہ امریکہ اور چین کو شمالی کوریا پر قریبی رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی میزبانی میں منگل کو ایک ویبینار میں شرکت کرتے ہوئے سلیون نےکہا کہ شمالی کوریا کی طرف سے کئی تجربات دیکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اشارہ دیا ہےکہ اگر شمالی کوریا ایسا کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم سفارت کاری میں نیک نیتی سے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا، اس معاملے پر ہم آہنگی بھی بہت اہم ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں شمالی کوریا نے میزائل کے کئی تجربات کیے ہیں جن میں ریل اور آبدوز سے چلائے گئے میزائل بھی شامل ہیں۔
ماہریں کا یہ بھی کہنا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے معاملے میں دونوں میں مختلف سوچ موجود ہے۔
اس سلسلے میں ماہر، کرونین کہتے ہیں کہ چین واضح طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے معاملے میں امریکہ کی طرح دلچسپی نہیں رکھتا ہے اور چین کے اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کے لیے حالیہ اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
پینٹگان کا اندازہ ہے کہ چین کے پاس 2027 تک 700 اور 2030 تک 1000 جوہری 'وار ہیڈز' ہو سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے ایک سینئر فیلو، رابرٹ میننگ کے مطابق، چین کی ترجیحات میں جزیرہ نما کوریا پر "کوئی جنگ نہیں"، شمالی کوریا کی حکومت کا "کوئی خاتمہ" نہیں، "کوئی ایٹمی ہتھیار نہیں" شامل ہیں۔
میننگ کہتے ہیں کہ مختلف ترجیحات جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی طرف سفارت کاری میں تعاون حدود کی نشاندہی کرتی ہیں۔
چین کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے لیے کوشش
چین جو کہ شمالی کوریا کا اہم ترین تجارتی شراکت کار ہےشمالی کوریا کے لیے پابندیوں میں نرمی کی وکالت کرتا آرہا ہے۔
اقوام متحدہ کی نافذ کردہ پابندیوں کا ہدف ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو اور انسانی حقوق کی پامالی کو روکنا ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں چینی خارجہ پالیسی پر مہارت رکھنے والی تجزیہ نگار پیٹریشیا کم نے کہا کہ شمالی کوریا کے بارے میں امریکہ اور چین کی ترجیحات میں اختلاف کے نتیجے میں جوہری تخفیف اور پابندیوں میں نرمی پر مختلف آراء بن گئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کم کے مطابق چین کی یہ ترجیح کہ جزیرہ نما کوریا پر استحکام برقرار رہے، اس کی توجہ اس بات پر مرکوز کرتی ہے کہ شمالی کوریا کو خطے میں سیاسی اور اقتصادی طور پر شامل کیا جائے۔
اس ماہ ایک قرارداد کے مسودے کے مطابق چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا پر عائد پابندیاں اٹھائے۔
واشنگٹن اور شمالی کوریا میں سفارت کاری 2019 کی ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہے۔
صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے شمالی کوریا کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے لیکن شمالی کوریا نے بڑی حد تک اس پیش کش پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔