امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کہا ہے کہ امریکی اسپیشل آپریشنز فورسز کی عراق میں آمد ہوچکی ہے، اور وہ داعش کے مضبوط ٹھکانوں کو ہدف بنانے کے لیے عراقی افواج کی مدد کریں گی۔
کارٹر نے کہا ہے کہ تقریباً 200 کمانڈوز نے ’پہلے ہی عراقیوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے‘ اور توقع ہے کہ وہ ’نئے اہداف، نئے حملوں اور نئے مواقع کو تلاش کریں گے‘۔
امریکی وزیر دفاع نے اس بات کا اعلان کنٹکی میں واقع فورٹ کیپ بیل میں کیا، جہاں وہ 101ویں ’ایئربورن ڈویژن‘ کی فوج سے مخاطب تھے، جو بہت جلد عراق میں تعینات ہوں گے۔
اُنھوں نے تفصیلی منصوبے کے بارے میں بتایا جس کے تحت عراق اور شام میں داعش کے وسیع خطے کو بازیاب کرنا شامل ہے، جہاں شدت پسندوں نے ایک مذہبی خلافت کے قیام کا دعویٰ کیا ہے۔
امریکہ اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ شمالی عراق کے شہر موصل میں عراقی اور کُرد پیشمرگہ کی فوجوں کی مدد کی جائے؛ اور شمالی شام میں دولت اسلامیہ کے لڑاکوں کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لیے شامی باغی فوجوں کی اعانت کی جائے، جو رقہ میں اپنے خود ساختہ دارالحکومت میں موجود ہیں۔
کمانڈوز کی تعیناتی داعش کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے نئے امریکی عزم کی آئینہ دار ہے، اور امریکہ کی جانب سے ایک سال قبل شروع کیے گئے سینکڑوں لڑاکا طیاروں اور ڈرون حملے اِس کے علاوہ ہیں، ایسے میں جب صدر براک اوباما نے زمین پر فوجوں کی بڑی تعیناتی کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
کمانڈوز کی یہ تعیناتی صدر اوباما کی جانب سے گذشتہ برس شام میں روانہ کی گئی 50 امریکی اسپیشل آپریشنز کی اُس فوج کے علاوہ ہے، جس کا مقصد صدر بشار الأسد کے خلاف جاری خانہ جنگی میں باغی دھڑوں سے رابطہ قائم کرنا ہے، جو لڑائی تقریباً پچھلے پانچ برس سے لڑی جا رہی ہے۔
کارٹر کے بقول، ’صدر اوباما کچھ کر دکھانے کے عزم پر قائم ہیں، ایسے میں جب مواقع پیدا ہورہے ہیں، جو کارگر ہوں اور جو دشمن کا صفایا کرنے میں مدد دیں، جب تک کہ داعش کو شکست فاش نہیں دی جاتی‘۔
کارٹر اگلے ہفتے پیرس میں برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی اور نیدرلینڈز کے دفاعی سربراہوں کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں، جس موقعے پر وہ داعش کے خلاف لڑائی کو مزید تیز کرنے پر زور دیں گے۔