امریکہ کے صدر براک اوباما نے ملک میں بےروزگاری کی شرح میں کمی کا خیرمقدم کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر کانگریس تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ٹیکس میں چھوٹ اور بےروزگاری الاؤنس میں توسیع کرنے میں ناکام رہی تو یہ امریکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
اس سے قبل جمعہ کو امریکہ محکمہٴ محنت کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشما ر میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ نومبر میں امریکہ میں بےروزگاری کی شرح 6ء8 فیصد رہی جو گزشتہ دو برسوں کی کم ترین سطح ہے۔
محکمہٴ محنت کی اِس حوصلہ کُن رپورٹ کے بعد جِس کے مطابق گزشتہ ماہ امریکی معیشت میں ایک لاکھ 20 ہزار ملازتوں کا اضافہ ہوا، امریکی اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
تاہم ،صدر اوباما نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گزشتہ روز امریکی سینیٹ میں ری پبلکنز کی جانب سے اس بل کو روکے جانے پہ سخت مایوسی ہوئی ہے جس کا مقصد مڈل کلاس تنخواہ دار طبقےکو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ کا دائرہ وسیع کرنا تھا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چھوٹ میں توسیع نہ دے کر کانگریس لگ بھگ 16 کروڑ امریکیوں پر عائد ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ ری پبلکن پارٹی صدر اوباما کے اس منصوبے کی سخت مخالف ہے جس کے تحت وہ تنخواہ دار طبقے کو دی گئی چھوٹ سے محصولات میں ہونے والی کمی کو امیر طبقے پر ٹیکس لگا کر پورا کرنے کے خواہاں ہیں۔
قبل ازیں، جمعہ کو امریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بوہینر نے امریکی معیشت میں ملازمتوں کے نئے مواقع کی فراہمی کو خوش کن خبر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں بےروزگاری کی شرح اب بھی "ناقابلِ قبول حد تک بلند" ہے۔
تاہم، امریکی محکمہٴ محنت کی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روزگار کی صورتِ حال میں بہتری جہاں ایک جانب نجی کمپنیوں کی جانب سے ملازمتوں کے نئے مواقع فراہم کرنے کے نتیجے میں آئی ہے وہیں اس میں ایک بڑا کردار ان کئی ہزار افراد کا ہے جنہوں نے طویل بےروزگاری سے تنگ آکر نئی ملازمت کے حصول کی کوششیں ترک کردی ہیں۔
امریکی محکمہ ٴمحنت بےروزگاری کی شرح صرف ان لوگوں کی بنیاد پر مرتب کرتا ہے جو سرگرمی سے ملازمت تلاش میں کر رہے ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہِ نومبر کے دوران تھوک، ریستورانوں اور قہوہ خانوں، کاروباری اداروں اور صحتِ عامہ کے شعبوں میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے جب کہ سرکاری شعبوں میں روزگار کے مواقع بدستور کم ہورہے ہیں۔