امریکہ میں مالی سال کا اختتام ہونے والا ہے جب کہ ایوانِ نمائندگان میں اکثریت رکھنے والی ری پبلکن جماعت حکومتی اخراجات میں کمی پر اصرار کر رہی ہے۔
ایوانِ نمائندگان سے حکومتی اخراجات کی مںظوری نہ ہونے کی صورت میں آئندہ ہفتے امریکی حکومت کو ’شٹ ڈاؤن‘ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
یہ شٹ ڈاؤن کیا ہے اور امریکہ میں کاروبارِ حکومت اور عام لوگوں پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ جانیے اس تحریر میں۔
شٹ ڈاؤن کیا ہے؟
امریکہ میں 30 ستمبر کو مالی سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اس سے قبل کانگریس کو حکومت کے 438 اداروں کے لیے اخراجات مختص کرنا ہوتے ہیں۔
اگر قانون ساز نئے مالی سال کے آغاز سے قبل اخراجات کی منظوری نہیں دیتے تو یہ حکومتی ادارے معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ پاتے اور کئی اداروں کے ملازمین بھی معطل ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال کو حکومت کی بندش یا ’ شٹ ڈاؤن‘ کہا جاتا ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق 1981 سے لے کر اب تک 14 بار گورنمٹ شٹ ڈاؤن ہو چکا ہے جن میں سے کئی بار محض ایک یا دو روز کے لیے ہوئے۔ حالیہ برسوں میں طویل ترین شٹ ڈاؤن بارڈر سیکیورٹی سے متعلق ہونے والے تنازع کی وجہ سے ہوا تھا۔ دسمبر 2018 میں شروع ہونے و الا یہ شٹ ڈاؤن 34 دن تک جاری رہنے کے بعد جنوری 2019 میں ختم ہوا تھا۔
کئی مرتبہ اخراجات کی منظوری پر جاری مذاکرات کے دوران سرکاری اداروں کی فنڈنگ کی مدت میں توسیع کر دیتی ہے تاکہ حتمی منظوری تک ادارے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
SEE ALSO: قرضوں کا بوجھ اور سیاسی انتشار، ریٹنگ ایجنسی فِچ نے امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ کم کردیشٹ ڈاؤن کا اثر کیا ہوتا ہے؟
شٹ ڈاؤن کی صورت میں لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری کام رک جاتے ہیں۔ شٹ ڈاؤن کے باعث مالیاتی امور سے لے کر نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے تک سرکاری خدمات متاثر ہوتی ہیں۔
’ناگزیر‘ کاموں سے منسلک اہل کاروں کو معطل نہیں کیا جاتا لیکن شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک انہیں ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔ ٹیکس جمع کرنے اور ڈاک کے محکمے جیسے ادارے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
جو شٹ ڈاؤن محض چند دنوں تک جاری رہیں ان کے اثرات عملاً بہت کم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اختتامِ ہفتہ پر ہونے والے شٹ ڈاؤن روز مرہ معمولات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے۔ لیکن اگر دو ہفتے بعد بھی وفاقی ملازمین کو ادائیگیاں نہ ہوں تو اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معیشت پر اثر پڑتا ہے۔
مالیاتی خدمات اور سرمایہ کاری کے امریکی ادارے ’گولڈ ساکس‘ کے مطابق شٹ ڈاؤن کے دوران ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) براہ راست ہر ہفتے 0.15 فی صد کم ہوتی ہے۔ تاہم شٹ ڈاؤن ختم ہوتے ہی جی ڈی پی میں ہفتہ وار اسی شرح سے اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔
کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق 19-2018 میں ہونے والے شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں امریکی معیشت کو تین ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
کیا یہ ’ناگزیر‘ ہے؟
ہر وفاقی ادارہ اور محکمہ شٹ ڈاؤن کی صورت میں پیشگی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ ملازمین کو ادائیگیوں کے بغیر بھی کام جاری رکھنا ہو گا۔
مالی سال 19-2018 کے دوران وفاقی حکومت کے 22 لاکھ ملازمین میں سے آٹھ لاکھ کو شٹ ڈاؤن کی وجہ سے عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے بجٹ آفس نے تاحال اس سال ممکنہ طور پر متاثر ہونے والوں کی تعداد بیان نہیں کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈپارٹمنٹ آف ہوم سیکیورٹی کے 2022 کے شٹ ڈاؤن منصوبے کے مطابق محکمے کے دو لاکھ 53 ہزار ملازمین میں سے دو لاکھ 27 ہزار نے کام جاری رکھا جن میں سیکیورٹی ایجنٹس اور کوسٹ گارڈ کے اہل کار شامل تھے۔
امریکہ کے محکمہ انصاف نے 2021 کے کنٹی جینسی (بیک اپ) پلان میں اپنے ایک لاکھ 16 ہزار ملازمین میں سے 85 فی صد کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ ان ملازمین میں جیل کا عملہ اور پراسیکیوٹر شامل تھے۔ منصوبے میں فوج داری مقدمات جاری رکھنے اور دیوانی مقدمات کو معطل کرنے کی تجویز رکھی گئی تھی۔
شٹ ڈاؤن کی صورت میں عام طور پر فضائی سفر متاثر نہیں ہوتا تاہم آخری بار 2018 میں ہونے والے شٹ ڈاؤن میں ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے انتباہ جاری کیا تھا کہ ایئر پورٹ سیکیورٹی میں اسکریننگ کرنے والوں کی جانب سے بیماری کی درخواستوں کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی واضح نہیں کہ امریکہ کی وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام 63 نیشنل پارک کھلے رہیں گے یا نہیں۔ 2013 میں اوباما حکومت کے دوران ہونے والے شٹ ڈاؤن کے باعث سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پارکس بند ہو گئے تھے جس کے باعث انہیں 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
صدر ٹرمپ کے دور میں 19-2018 کے شٹ ڈاؤن میں نیشنل پارکس کھلے رکھے گئے تھے تاہم ان میں بیت الخلا، انفارمیشن ڈیسک اور کچرا ٹھکانے لگانے کے کام کو بند رکھا گیا تھا۔ اس دوران نیویارک اور یوٹا کی ریاستوں نے نیشنل پارکس میں تمام خدمات کو جاری رکھنے کا انتظام کیا تھا۔
انٹرنل ریونیو سروس نے پچھلی بار ہونے والے شٹ ڈاؤن میں اپنے 90 فی صد عملے کو کام سے روک دیا تھا تاہم حالیہ کنٹی جینسی پلان میں سروس نے تمام عملے کو ناگزیر قرار دیا ہے۔
فوج کے تمام اہل کار کام جاری رکھیں گے تاہم پینٹاگان میں کام کرنے والے چار لاکھ 29 ہزار سویلین اہل کار شٹ ڈاؤں کی صورت میں معطل ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شٹ ڈاؤن اور قرضوں کی بالائی حد؟
شٹ ڈاؤن اس صورت میں ہوتا ہے جب وفاقی حکومت اخراجات کے لیے کانگریس سے منظوری حاصل نہ کر پائے۔
دوسری جانب کانگریس اخراجات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں کی بالائی حد کا تعین بھی کرتی ہے جسے ہر کچھ عرصے بعد بڑھانا پڑتا ہے۔
اگر کانگریس قرضوں کے بالائی حد میں اضافے کی منظوری نہ دے تو امریکہ کا محکمہ خزانہ قرضوں کی ادائیگی نہیں کرپاتا۔ گورنمنٹ پر شٹ ڈاؤن کے مقابلے میں قرضوں کی بالائی حد بڑھانے کی عدم منظوری زیادہ گہرے اقتصادی اثرات مرتب کرتی ہے۔
بعض مرتبہ کانگریس قرضوں کی بالائی حد میں بہ آسانی اضافی کردیتی ہے لیکن کئی بار اس میں اضافے کے لیے آخری لمحے تک بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے۔
رواں برس جون میں بائیڈن حکومت کو ایوانِ نمائندگان سے قرضوں کی بالائی حد بڑھانے کی منظوری لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے رائٹرز سے معلومات لی گئی ہیں۔