امریکہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر کو ہلاک کرنے کے مبینہ ایرانی منصوبے کے حوالے سے اِس ہفتے کے آغاز میں امریکہ نے ایرانی عہدے داروں کے ساتھ براہِ راست ملاقات کی۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملاقات کا مقصد اِس بات کو بالکل واضح کرنا تھا کہ امریکہ اِس قسم کے رویے کوناقابلِ قبول سمجھتا ہے اور یہ امریکی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے اس ملاقات کی تردید ایک بار پھر ایسے معاملات میں ایران کا سچائی سے انکار کو ظاہر کرتا ہے۔
ایران کی مہر نیوز ایجنسی نے جمعے کو اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کے ایک عہدے دار کے حوالے سے بتایا کہ امریکہ اور ایران کا کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہوا۔
جمعرات کو صدر براک اوباما نے ایرانی عہدے داروں کو متنبہ کیا کہ، اُن کے بقول، سعودی سفیر عدیل الجبیر کو ہلاک کرنے کے مبینہ منصوبے میں اُن کے ملوث ہونے کی پاداش میں اُنھیں ممکنہ سخت ترین کڑی تعزیرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسٹر اوباما نے مبینہ منصوبے کو ’خطرناک اور ناعاقبت اندیش‘ طرز کی سازش قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایران سے نمٹنے کے لیے مختلف نوعیت کے آپشنز موجود ہیں۔
سنہ 1980سے اب تک امریکہ کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
ایران نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ایران کے ایک عہدے دار نے معاملے کو ’مضحکہ خیز‘قرار دیا۔
اِس منصوبے کے بارے میں امریکہ اور ایران دونوں نے اقوام متحدہ کو مراسلے روانہ کیے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اِس مبینہ منصوبے کی ’سازش، سرپرستی اور احکامات ‘ کے تانے بانے حکومت ِایران کے عناصر تک جاملتے ہیں۔ ایرانی مراسلے میں تہران نےشدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے اِسے سختی سے مسترد کیا ہے، جوکہ ، اُس کے بقول، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پر مبنی ہے۔