امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کے انٹیلی جنس چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین میں اپنی فوج کے پھیلاؤ اور شدید مزاحمت کے باعث روسی صدر ولادیمیر پوٹن وہ ابتدائی مقاصد حاصل نہیں کر پائے جس کی اُنہوں نے یوکرین میں جارحیت کے آغاز پر اُمید کی تھی۔
ڈیفنس انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر لیفٹننٹ جنرل اسکاٹ بیریر نے جمعے کو میری لینڈ میں انٹیلی جنس کمیونٹی کی نیشنل سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ یوکرین جنگ میں اب وہ مرحلہ آن پہنچا ہے، جب پوٹن کو اپنے مقاصد پر نظرِ ثانی کرنا پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پوٹن نے جس مقصد کے تحت فروری میں یوکرین پر چڑھائی کی تھی وہ اب انہیں حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
SEE ALSO: روس سے واگزار کرائے گئے یوکرینی شہر سے 10 عقوبت خانے اور اجتماعی قبر دریافت
اسکاٹ بیریر نے مزید بتایا کہ پوٹن نے اُن کے بقول مغرب نواز حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے یوکرین میں فوج بھیجی، لیکن یوکرینی افواج نے کمال مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی روسی افواج کو پیچھے دھکیل دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے بھی روس کو یک بڑا دھچکہ لگا جب یوکرینی افواج نے ایک جوابی حملے میں شمال مشرقی حصے میں روس کے زیرِ قبضہ کئی یوکرینی علاقوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر حکام نے تاحال روس کی حالیہ پسپائی کو یوکرین کی فتح قرار نہیں دیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آگے کیا ہو گا اس کا تعین کرنا فی الحال مشکل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیریر نے پوٹن کے بارے میں کہا کہ اب وہ اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ "وہ فیصلہ کیا ہو گا،ہم نہیں جانتے لیکن اسی فیصلے کے بعد ہی یہ اندازہ ہو سکے گا کہ جنگ کب تک چلے گی"۔
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی معاونت سے یوکرین کی کامیابیوں سے بوکھلا کر کیا پوٹن بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو استعمال نہیں کریں گے، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پوٹن، یوکرین میں اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹیں گے۔ کیوں کہ ہمیں تاحال ایسا کوئی جواز دکھائی نہیں دیا جس سے یہ لگے کہ پوٹن اپنے عزائم سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ روس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے"۔
Your browser doesn’t support HTML5
کوہن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پوٹن کی خطرات مول لینے کی بھوک ختم ہو گئی ہے، کیوں کہ پوٹن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یوکرین جنگ میں ملوث نہ ہونے کا انتباہ کیا تھا۔
پوٹن اور روسی حکام نے جوہری ہتھیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی بھی دھمکی دی تھی۔
ازبکستان میں شنگھائی تعاون کونسل (ایس سی او) اجلاس کے دوران پوٹن نے یوکرین کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا عزم کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر یوکرینی فوج نے روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا تو یوکرین میں بھی انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچائے گا۔