امریکہ نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتا چلایا اور اسے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات غیر یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں۔ خاص طور سے یہ سوال زیرِ غور ہے کہ کیا امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے شراکت دار، پاکستان کی امداد جاری رکھنی چاہیئے۔
امریکہ کی طرف سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کو جو چار ارب ڈالر کی سالانہ فوجی اور ترقیاتی امداد دی جاتی ہے، اس کے عوض امریکہ کو کیا ملتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں سینیٹر بوب کورکر نے کہا کہ بہت سے امریکی قانون ساز اس امداد پر دوبارہ غور کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ‘‘ہم میں سے بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں یہ امداد اس وقت تک روک دینی چاہیئے جب تک ہم یہ اطمینان نہیں کر لیتے کہ یہ ہمارے بہترین مفاد میں ہے اور پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلق کو جسے میں ایک لحاظ سے کاروباری تعلق سمجھتا ہوں، ہمیں فائدہ ہوگا۔’’
پاکستان کی طرف سے بھی امریکی امداد پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بعض لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ اس امداد کا بیشتر حصہ در اصل قرضوں پر مشتمل ہے جو ہمیں واپس کرنا ہوں گے۔
شہباز شریف پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے اور خوشحال صوبے، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس امداد کے عوض امریکہ پاکستان سے جو مطالبے کر رہا ہے، وہ اب مزید قابل قبول نہیں ہیں کیوں کہ پاکستان بیرونی اثرات سے آزاد رہنا چاہتا ہے۔
جمعے کے روز، پنجاب نے امریکہ کے ساتھ امداد کے چھہ سمجھوتے منسوخ کر دیے ۔
پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ، نواز گروپ کی حکومت ہے جو حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ پارٹی امریکی امداد میں علامتی کمی کے ذریعے، موجودہ ماحول میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
تجزیہ کار کہتےہیں کہ امریکی امداد کی منسوخی سے لمبی مدت میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ لگانے والے لوگ ملک میں اپنی سرمایہ کاری کا از سر نو جائزہ لیں گے اور اس کی اقتصادیات کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو 11 ارب ڈالر کا قرض دے رکھا ہے جو ملک کی معیشت کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان میں یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر اینڈریو سیسن کہتے ہیں کہ‘‘میں یہاں پاکستان میں اور امریکہ میں سیاسی معاملات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ ہمارے پروگرام میں کمی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ یہ سارا معاملہ شراکت داری کا ہے۔ طویل مدت کی ترقی کی بنیاد اعتماد پر اور طویل مدت کی سرمایہ کاری پر ہوتی ہے اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو اس سے ہماری اس طویل مدت کی شراکت داری کو نقصان پہنچے گا جسے ہم ترقی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔’’
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان کی امداد بند کردی، تو اس سے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پاکستانی ماہرِ معاشیات اسلم قیس کہتے ہیں کہ آخری بار امریکہ نے 1998ء میں پاکستان پر پابندیاں عائد کی تھیں جب پاکستانی نے ایٹمی ہتھیار ٹیسٹ کیے تھے۔ ان پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اسلامی انتہا پسندوں کے زیرِ اثر آ گیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘امریکہ نے ایک بار پہلے بھی یہ غلطی کی تھی جب ہم نے نیوکلیئر دھماکا کیا تھا۔ انھوں نے ہماری امداد بند کر دی اور ہم سے اقتصادی تعلقات منقطع کر دیے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ہمارا ملک دہشت گردی کا گہوارہ بن گیا۔ اگر وہ پھر ایک بار یہی کرنا چاہتے ہیں، تو وہ ہمیں پھر وہیں واپس بھیج دیں گے۔’’
امریکہ نے گیارہ ستمبر، 2001ء کے حملوں کے بعد ہی، پاکستان میں پوری طرح سرمایہ کاری شروع کی۔ 2002ء سے اب تک، امریکہ نے پاکستان کو 20 ارب ڈالر دیے ہیں۔ بیشتر امداد فوج کو دی گئی ہے تاکہ پاکستان افغانستان کی سرحد سے ملنے والے علاقے میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی بنیادی سہولتوں کی ترقی ، تعلیم اور ان علاقوں میں استحکام کے لیے بھی امداد دی گئی ہے جو کچھ عرصے پہلے تک انتہا پسندوں کے زیرِ اثر تھے۔ یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر سیسن کہتے ہیں کہ اس علاقے میں موجود دہشت گردوں کے بین الاقوامی خطرے کو ختم کرنے کے لیے یہ امداد اہم ثابت ہو سکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مدد دینے سے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے، اور آبادی کو صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی سے، پاکستان کے استحکام میں اضافہ ہو گا۔ ہم ایسے علاقوں میں جہاں حال ہی میں انتہا پسند سرگرم تھے، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔’’
سینیٹر جان کیری سمیت جو حال ہی میں پاکستان گئے تھے، بہت سے امریکی لیڈروں کا خیال ہے اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں استحکام ہو نہ کہ اس مفروضے پر کہ شاید پاکستان نے بن لادن کو پناہ دینے میں مدد دی ہو، اسے سزا دینے کے بارے میں سوچا جائے۔