امریکہ نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور ان کے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری نے فون پر حالیہ گفتگو میں روس کےیوکرین کی جنگ سے عدم استحکام پیدا کرنے والے اثرات اور ماسکو کے اناج کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر بات چیت کی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل نے کہاکہ روسی اقدامات سے پیدا ہونے والے اثرات دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ مفاد کا معاملہ ہے۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں روزانہ کی بریفنگ کے دوران سوالوں کے جواب میں ترجمان نے حال ہی میں بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کی منسوخی کے معاملے کو ایک اہم ترجیح قراردیا۔
وہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے درمیان بحیرہ اسود کے معاہدے کے معاملے پر ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے ترجمان پٹیل نے کہا کہ وزرائے خارجہ کی گفتگو میں امریکی سفارت کار نے پاکستان کی معاشی کامیابی اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے امریکہ کے عزم کو دہرایا اور کہا کہ پاکستان کی اقتصادی کامیابی امریکہ کے لیے ایک ترجیح ہے۔
SEE ALSO: یہ تاثر درست نہیں کہ امریکہ پاکستان کو بھول گیا ہے: محکمہ خارجہدوسری طرف پاکستان کی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بحیرہ اسود کے معاہدے کی اہمیت اور اس کے رک جانے سے غذا کی عالمی فراہمی میں رکاوٹ اور مہنگائی کے تناظر میں روسی وزیرِ خارجہ لاوروف سے بات کرتے ہوئے اس مسئلے کے قابل عمل حل کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس معاہدے کا حل ترقی پذیرممالک کے لیے فائد ہ مند ہونا چاہیے کیونکہ ان ممالک کو پہلے ہی اقتصادی دباؤ کا سامنا ہے۔
بلاول بھٹو نے اسلام آباد کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان اس معاہدے کو ایسے طریقے سے بحال کرنے کی حمایت کرے گا جو تمام فریقوں کے خدشات کو دور کرے۔
وزیر خارجہ بلاول نے روسی ہم منصب سرگئی لا وروف کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بلاول بھٹو نے روسی وزیرخارجہ کو بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کے مسئلے پر یوکرین، ترکیہ، امریکی وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندےسے اپنی بات چیت کے بارے میں آگاہ کیا جبکہ روس کے وزیر خارجہ لاوروف نے انہیں اس معاملے پر روس کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا ۔پاکستانی وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ نے اس معاملے پر ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔