پاکستان کے وزیر خارجہ بلاو ل بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب بھی ماضی میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں یا باہمی رابطوں میں کمی ہوئی اس کے نتیجے میں ان کے بقول دونوں ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔
جمعے کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں موجود ہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات ا ور کامیابیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل دورختم ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اپریل میں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر ہونے کے بعد پاکستان اورامریکہ کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکہ ہمارا ایک تاریخی دوست ہے اور پاکستان اور امریکہ نے جب بھی مل کر کام کیا ہے تو دونوں ممالک نے اس تعاون سے بہت کچھ حاصل کیا ہے ۔
انھو ں نے کہا کہ جب اپریل میں وہ وزیر خارجہ بنے تو ان کا پہلا ٹیلی فونک رابطہ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ ماضی کے بر عکس دونوں ممالک کو تعلقات میں مزید وسعت لانے کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں توجہ دہشت گردی اور افغانستان پر مرکوز رہی ہے لیکن ان کے بقول اب دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کو افغانستا ن کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا اب پاکستان کی ترجیح امداد کی بجائے تجارت ہے اور ا ب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات دہشت گردی اورسیکیورٹی تعاون کے ساتھ ساتھ تجارت ، صحت عامہ اور دیگر شعبوں میں بھی بہتر ہورہے ہیں ۔
بین االاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر نواز جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ اب پاکستان کو اس طرح امداد نہیں ملے گی جیسا کہ سرد جنگ کے دور میں اور بعد ازاں افغانستان کی جنگ کی وجہ سے پاکستان کو ملتی رہی ہے۔
لیکن ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اس کےباوجود پاکستان کی جیو گرافک ،محل وقوع اور جوہری ملک ہونے کے باعث اپنی اہمیت ہے جب کہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہونے ککی وجہ سے بھی پاکستان کے لیے اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان اور امریکہ دو طرفہ تعلقات پر توجہ مرکوز کریں گے جو ان کے بقول دونوں ممالک کی اچھی اپروچ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب دونوں ممالک کو توجہ کثیر الجہتی تعلقات بشمول تجارتی ، سفارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر دینی ہوگی۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اب امریکہ کو بھی اس بات کا ادرک کرنا ہو گا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سیکیورٹی کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی تعاون ہو سکتا ہے۔
انھو ں نے کہا امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے باہمی تجارتی حجم میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کا اندرونی سیاسی استحکام ضروری ہے تاکہ پاکستان اپنی برآمدات کا معیار بہتر کرنے پر توجہ دے سکے اور عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکے۔
اگرچہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مشکلات کم ہوئی ہیں لیکن تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر جیو اسٹرٹیجک ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اور امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کا چیلنج درپیش رہے گا۔ لیکن ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اپنی خارجہ پالیسی میں توازن رکھے گا تو اسےشاید شروع میں کچھ مشکلات آئیں لیکن پاکستان کا اس پالیسی پر پائیدار طور پر گامزن رہنا اس کے مفاد میں ہوگا۔
'افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا تنہا فیصلہ نہیں کریں گے'
افغانستان کی صورت حال کا ذکرکرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ باقی دنیا کے ساتھ چلےگا۔
انھوں نے افغانستان کی طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ بین الااقوامی برداری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے اور افغانستان کے تمام شہریوں بشمول خواتین کے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ دنیا کو بھی افغانستان کے ساتھ رابطے برقرار رکھنا چاہئیں اور ماضی کی غلطیوں کو نہ دوہرایا جائے تاکہ وہاں کوئی انسانی بحران پیدا نہ ہو
'داخلی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے'
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی داخلی سلامتی اور دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق ریاست کی پالیسی کا بند کمرے میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور جنوبی وزیرستان کے عوام نے ہمیشہ امن کی حمایت کی اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور ان کےبقول اگر یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ بعض مبینہ دہشت گرد واپس آرہے ہیں اور وہ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں تو ان کےبقول یہ ان کا حق ہے ۔ لیکن دوسری جانب انھوں نے کہا کہ اگر خیبر پختونخواہ کے عوام کو مبینہ دہشت گردوں کی واپسی کے بارے میں تاثر صحیح یا غلط ہے تو یہ ریاست او ر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن وامان قائم کرنے کے لیے ریاست کی رٹ کو یقینی بنائے۔
جب بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ کالعدم شدت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان’ ٹی ٹی پی‘ سے نمٹنے کے لیے جنگ یا مذکرات میں کونسا راستہ درست ہے تو انھوں نے کہا کہ یہ اتناآسان معاملہ نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت کے فیصلوں کے بارے میں وہ ایک مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی اور پاکستان کی حکومت کے درمیان مصالحتی مذکرات شروع ہوئے تھے لیکن ابھی تک ان میں کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ جب کہ دوسری جانب اس عرسے کے دوران خبیر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔