صدراوباما کا اچانک دورہٴ افغانستان اور افغان صدرحامد کرزئی کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور سٹریٹیجک شراکت داری سے متعلق ایک معاہدے پردستخط۔ اس پر’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اِس معاہدے میں 2014ء میں امریکی اور نیٹو فوجوں کے افغانستان سےچلے جانے کے بعد دونوں ملکوں کےباہمی تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کی گئی ہےاورجیسا کہ صدر کرزئی نےاس دستا ویز پر دستخط کرنے کے بعد کہا اس سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما رات کی تاریکی میں اپنے سفر کو صیغہٴ راز میں رکھتے ہوئے بگرام اڈُے پر پہنچے تھے جہاں سے وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دستخطوں کی تقریت کے لئے کابل کے صدارتی محل میں لائے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ افغانوں اور دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ امریکہ افغانستان کا دوست اور شراکت دار ہےاور افغان حکومت اور باغیوں کے درمیان سیاسی تصفیے کو آگے بڑھانے کی غرض سے اُن کی حکومت طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرتی آئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر نے پہلی بار کھل کر اقرار کیا کہ امریکی سفارت کاروں اور طالبان کے درمیان اکثر خفیہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اُن کا روئے سخن اپنے ناقدین خاص طور پر ری پبلکن مد مقابل مٹ رامنی کی طرف تھا جو ان کی انتظامیہ کی افغانستان سے فوجیں نکالنے کی حتمی تاریخ دینے کو ایک غلطی سمجھتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ کابل کا یہ اچانک سفر ایسے میں کیا گیا جب صد ر اوباما کی انتخابی مہم نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا مسٹر اوباما کے لئے یہ مناسب تھا کہ وُہ اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کو صدارتی انتخابات میں ان کے متوقع ری پبلکن مد مقابل مٹ رامنی کے خلاف سیاسی دلیل کے طور پر پیش کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ رائے عامّہ کے جائزوں کے مطابق امریکیوں کی بھاری تعداد افغان جنگ کے خلاف ہو گئی ہے اور صدر کے معاونین اس پر غور کر رہے ہیں کہ ستمبر تک مزید 23 ہزار فوجیوں کو واپس بلانے میں جلدی کی جائے اور شکاگو میں اس ماہ کی میٹنگ میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی سنہ2013 میں اپنے افغان مشن میں اس تبد یلی کی توثیق کر دیں گے، جس میں ان کی ذمہ داری لڑائی کے بجائے انسداد دہشت گردی اور افغان فوجوں کی تربیت میں بدل جائے گی۔
اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کی پہلی برسی پر صدر حامد کرزئی کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط ہو ئے ہیں ۔ جس سے اس جنگ کا ایک نیا دور شرو ع ہوگا او اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے افغانستان کو مزید دس سال تک اقتصادی اور فوجی امداد ملتی رہے گی۔ صدر نے فوجوں سے خطاب کرتے ہوئے جب بن لادن کی سپیشیل امریکی فوجوں کے ہاتھوں ہلاکت کا ذکر کیا۔ تو فوجوں نے زور زور سے تالیاں پیٹیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں مسٹر اوباما نے کہا ۔کہ یہ لوگ بھی افغانستان کے مستقبل کا حصّہ بن سکتے ہیں بشرطیکہ القاعدہ سے قطع تعلق کریں۔ تشدّد کو خیرباد کہیں اور افغان قانون کی پاسداری کریں ۔ اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے قطر میں اپنا ایک دفتر کھولنے کا وعدہ پور انہیں کیا ہے اخبار کا یہ بھی کہنا ہے ۔کہ ناقدین کو یہ شکائت ہے کہ مسٹر اوباما نے بن لادن کی ہلاکت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی ناقدین کے اس نقطے کا ذکر کیا ہے کہ مسٹر اوباما اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے واقعے کو دوبارہ صدر منتخب ہونے کے حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسے میں جب ری پبلکنزسمندر پار ملکوں میں امسٹر اوباما کی قیادت کو کمزور قرار دے رہے ہیں، مسٹر اوباما بن لادن کے خلاف کی گئی کاروائی کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئےخطر ناک فیصلے کرنے کے اہل ہیں۔
’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اوباما انتظامیہ اور اُن کی انتخابی مہم کی طرف سے قومی سلامتی کی اہمیت پر بہت زور دیا جاتا رہا ہے اور یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مٹ رامنی صدر ہوتے تو اُن کا بن لادن کے خلاف اسی قسم کا فیصلہ کرنا محل نظر ہے، جس کے جواب میں ری پبلکنوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ فوج کی اس مہم کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے افغانستان میں اوباما کے خطابات میں سے اس نقطے کا خاص ذکر کیا ہے کہ القاعدہ کی شکست اب قریب ہے۔ پچھلے تین سال کے دوران پانسہ پلٹ گیا ہے، اور تین سال قبل میں نے اپنے سامنے جو یہ نصب العین رکھا تھا کہ القاعدہ کو پنپنےکا موقع نہیں دیا جائے گا، وہ اب قریب ہوتا جارہا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: