1۔امریکہ کی 2 سو 35 ویں سالگرہ پر ’یو ایس ٹوڈے ‘اخبار نے امریکی غیرمعمولی پنے کے عقیدے پر تبصرہ کیا ہے جس کےمطابق امریکہ دوسرے ملکوں سے مختلف بلکہ ان سے بہتر ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ایک حد تک یہ خود تعریفی مناسب ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں ۔امریکہ بلاشبہ ہے غیرمعمولی، اور وہ بجا طور پر اپنے باکمال آئین پر، ان آزادیوں پر جن کی وہ ضمانت دیتا ہے اپنی ایجادات و جدت طرازیوں پر، اپنے گونا گوں تہذیبی ورثے پراور اپنی فوجی فوقیت پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔
لیکن اخبار کہتا ہے کہ یہ امریکی غیر معمولی پنا خود پسندی کی دعوت دیتا ہے جب کہ ضرورت اس کے الٹ کی ہے۔اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے پاس دانشمندانہ پالیسیوں کا اجارہ نہیں۔ امریکہ کی مصنوعات بنانے کی بنیاد سکڑتی جا رہی ہے۔۔۔ اس کے سکولوں کی کارکردگی اچھی نہیں اور اس کی صحت عامّہ کی نگہداشت کا نظام صحیح کام نہیں کر رہا۔
اخبار کہتا ہے کہ دوسرے ملکوں پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے ہمارے لیڈروں کو چاہئے کہ ان کی بہترین باتوں کا مطالعہ کریں اور انہیں اس ملک میں رائج کریں۔
2۔اوبامہ انتظامیہ اور ری پبلکن قیادت کے درمیان بہت دنو ں سے قومی قرضے کی حد بڑھانے پر جو بے نتیجہ مذاکرات جاری ہیں ان پر معروف نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات، پال کرُوگ من نیو یارک ٹائمز میں لکھتے ہیں کہ اگر ایک ماہ کے اندر اندر اس سلسلے میں کچھ نہ کیا گیا تو وفاقی حکومت موجودہ حد کے قریب پہنچ چکی ہوگی اور اگر یہ حد نہ بڑھائی گئی۔ تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔یا توملک اقتصادی جمود کا شکار ہو جائے گا یا پھر سنہ 2008.9 کے مالی بُحران کی گہرایئوں میں دھکیلا جائے گا۔ قرضے کی حد نہ بڑھانےسے موجودہ قرضوں کی ادایئگی نہیں ہو پا سکے گی۔ اور سرمایہ کار یہ سمجھیں گے کہ امریکہ اب سنجیدہ اور ذمّہ دار ملک نہیں رہا۔ جس سے بہت ہی زیادہ بُرےنتائیج برآمد ہونگے اور کسی کو نہیں معلوم کہ امریکہ کی قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے عالمی مالی نظام کس طور متاثّر ہوگا، جس کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ امریکی قرضہ محفوظ ترین اثاثہ ہے۔پھر اس میں محض اعتبار کی بات نہیں۔ اگر قرض کی حدّ نہ بڑھائی گئی تو اوبامہ انتظامیہ کو مجبوراً اپنے اخراجات میں زبردست تخفیف کرنی پڑے گی۔لیکن کروگ من کہتے ہیں کہ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اخراجات میں کٹوتی سے فائدے ہونگےکیونکہ ان کی نظر میں یہ بیہودہ خیال ہے۔ چنانچہ قرض کی حد پر سمجھوتہ نہ ہونے کے نتائج نہائت ہی خراب ہونگے۔اور مسٹر اوبامہ اگر اپنی صدارت بچانا چاہتے ہیں تو اُنہیں ان نتائج کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔
پال کروگ من کا خیال ہے کہ ری پبلکن لیڈروں کو در حقیقت قرض کی حد کی پرواہ نہیں ہے ۔ بلکہ وہ اس بُحران کو اپنا نظریاتی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات کرنےوالے ڈیموکریٹ لیڈروں کے اس استدلال جواب میں کہ ہمیں کارپوریشنوں کو ٹیکسوں میں دی جانےوالی کٹوتیوں کو کم کرنے پر بات کرنی چاہئے، رپبلکن لیڈر مذاکرات چھوڑ کر بھاگ گئے۔
کروگ من یاد دلاتے ہیں۔ کہ صدر اوبامہ پچھلے سال دسمبرمیں بُش دور کی ٹیکسوں میں چھوٹ کے اقدام کےجاری رہنے دینے پر رضامند ہو گئے تھےان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر یہ ری پبلکنوں کو رعائت دی گئی تھی۔ اور کروگ من نے رسالہ اٰٹلانٹک کی اس بات سے اتّفاق کیا ہے کہ اس سمجھوتے میں قومی قرض کی حدبڑھانے کی شرط شامل کرنی چاہئے تھی۔
3۔ ۔اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے سر کردہ امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے خصوصی فوجی یونٹ، پاسدارانِ انقلاب نے ، حالیہ مہینوں میں عراق اور افغانستان میں اپنے اتحادیوں کے لئے ہلاکت خیز گولہ بارود روانہ کیا ہےتاکہ ان ملکوں سے امریکی فوجیوں کی مراجعت میں جلدی پیدا کی جائے ۔ اخبار کہتا ہے کہ عراق میں پاسداران انقلاب نےاپنے ملشیا اتّحادیوں کو راکیٹ کی مدد سے چلنے وا لے پھٹ جانے والے گولے بھیجے ہیں جن سے پہلے ہی متعدد امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان عہدہ داروں کےمطابق افغان طالبان کے لئے ایرانیوں نے زیادہ دور مار کرنے والے راکیٹ بھیجے ہیں جن کی مدد سے وہ محفوظ مقامات سے امریکی اور دوسرے اتحادی فوجیوں پر وار کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
ان ہتھیاروں کے بھیجنے کا ایک اثر یہ ہوگا کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان پورے مشرق وسطےٰ اور شمالی افریقہ میں اثر و نفوذ کی جاری مسابقت تیز تر ہو جائے گی جو ان دو جنگوں اور پورے خطّے میں پھیلنے والی سیاسی بغاوتوں کے پس منظر میں امریکی فوجی مراجعت کی تیاریوں سے مزید بڑھ گئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اس وقت تیونس لے کر بحرین تک عرب اتّحادیوں کے خلاف بغاوتوں کے مسائل سے نمٹ رہا ہے اور اس کی کوشش ہےکہ افغانستان اور عراق میں دوستانہ حکومتیں مستحکم ہوں جب کہ ایران کی کوسشش یہ لگ رہی ہے کہ ان ہنگاموں کے پس منظر میں سیاسی فوائید حاصل کئے جائیں۔اور امریکی مراجعت جس حد تک ممکن ہے جلد اور تکلیف دہ ہو۔
حالیہ ہفتوں کے دوران ایران نے افغانستان، عراق اور پاکستان کےلیڈروں کو تہران مدعو کیا ۔ اور ایرانی عہدہ داروں نے اجلاسوں میں واضح کر دیا کہ وہ اس علاقے سے امریکی فوجوں کی جلد واپسی چاہتے ہیں۔