پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور اُس کےحلیفوں کےخلاف سی آئی اے کےڈرون حملوں میں سنہ 2008 کے بعد جو تیزی آئی ہے اُس کی وجہ سے ’نیویارک ٹائمز‘ کے بقول، یہ تلخ بحث جاری ہے کہ اِن حملوں میں بے قصور شہری مارے جا رہے ہیں اور اِس پرسرکاری اور غیر سرکاری ذرائع کے بیانات ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ بحث صدر اوباما کے انسدادِ دہشت گردی کے ایک چوٹی کے مشیر جان برینن کے اُس بیان سے شروع ہوئی تھی جِس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ غیر معمولی مہارت اور صلاحیت کے بدولت اِن حملوں میں کولیٹرل ڈیمیج یعنی ’شہری جانی نقصان‘ مشکل سے ہی ہوتا ہے۔ اور دوسرے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی دعویٰ صحیح ہے اور سی آئی اے کے عہدے داروں کا ماننا ہے کہ ڈرون طیاروں نے اب تک 600سے زیادہ جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔ اُن میں وہ 20جنگجو شامل ہیں جِنھیں پاکستان میں بدھ کے روز کے ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا تھا اور جِس میں ایک بھی ایسا آدمی نہ تھا جو جنگجو نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈرونز سے لڑی جانے والی جنگ پر جو ابہام ہے اُس کو دور کرنا ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں جو ڈرون طیارے استعمال ہو رہے ہیں، اُنھوں نے روباٹک جنگ و جدال میں انقلاب پرپہ کردیا ہے۔ اِسےاب یمن اور صومالیہ تک پھیلا دیا گیا ہے اور فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اب پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔
لیکن ’نیو یارک ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ حکومت کے اِس دعوے کو گہرے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کہ اِس سے کوئی غیر فوجی نہیں مارا جارہا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستانی عہدے دار اکثرو بیشتر ڈرون حملوں کی مذمت کرتے آئے ہیں اگرچہ بعض اوقات اُنھوں نے خاموشی کے ساتھ اِس میں مدد بھی بہم پہنچائی ہے۔
اخبار نے انسدادِ دہشت گردی کے صدارتی مشیر جان برینن کے ایک تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو کوئی ایسے معتبر شواہد نہیں ملے ہیں کہ افغانستان اور عراق سےباہر دہشت گردی کے خلاف امریکی آپریشنز کے نتیجے میں کوئی شہری مارا گیا ہو اور امریکہ کی یہی کوشش رہے گی کہ کوئی شہری اِس کی زد میں نہ آئے۔
افغانستان میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر کی تباہی میں 38فوجیوں کی ہلاکت پر’ سین فرانسسکو کرانیکل‘ کہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ کے بارے میں یہ سوچا بھی نہ گیا تھا کہ وہ یہ راہ اختیار کرے گی۔ فوجوں میں اضافے ایک نئی جنگی حکمتِ عملی اور ایک کمانڈو حملے میں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت سے لگ رہا تھا کہ پیش رفت ممکن ہے۔
مئی میں کیے جانے والا حملہ افغان جنگ کا نقطہٴ عروج تھا لیکن ہیلی کاپٹر کی تباہی دس سالہ جنگ کا خوف ناک ترین دِن تھا۔ یہ ہیلی کاپٹر جِس مشن پر تھا اُس سے ملک کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ فوجی کس خوش دلی سے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جنگ کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اور نہ اِسے آسانی سے جیتا جاسکتا ہے اور اس کی قیمت اُن فوجیوں اوردوسروں کی جانیں ہیں جِن کا نذرانہ لڑائی ختم ہونے سے پہلے دیا جاتا ہے۔
’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کہتا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے اس بیان سے کہ وہ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں امیدوار نہیں ہوں گے، افغانستان کا مستقبل اور زیادہ غیر یقینی ہوگیا ہے۔
اخبار کہتا ہےکہ اِس وقت تک یُوں بھی بہت کچھ ہو چکا ہوگا۔ امریکہ کا منصوبہ اُس وقت تک اپنی بیشتر فوجیں وہاں سے نکالنے کا ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ فوجی اڈے قائم کرنےکی طویل المدت معاہدوں کی بھی کوشش کررہا ہے۔ ایک بڑا غیر یقینی عنصر یہ ہے کہ آیا طالبان کے ساتھ امن کا کوئی سودا طے پائے گا اور اگر طے پایا تو پھر کون سے افغان دھڑے اور خطے کی کون سی حکومتیں اِس کا احترام کریں گی۔
اخبار کہتا ہے کہ اِن غیر یقینی باتوں کے ہوتے ہوئے افغانستان کے خواص کی نظر مستقبل کی طاقت کی رسہ کشی پر نہیں بلکہ روزمرہ کی پریشانیوں پر مرکوز ہے۔
اخبار کی اطلاع ہے کہ طالبان نے مذاکرات سے اپنے آپ کو ہٹا لیا تھا کیونکہ مذاکرات کی حقیقت اب منظرِ عام پر آگئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کو اصرار رہا ہے کہ تمام مذاکرات سختی کے ساتھ صیغہٴ راز میں رہنے چاہئیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: