پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہوگی، محکمۂ خارجہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر

  • ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ سیاسی عمل کا آغاز ہے۔ لیکن یقیناً کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا ایک ایسی بات ہوگی جو ہمارے لیے بڑی تشویش کا باعث ہوگی، ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ
  • ہم پاکستان سمیت ہر ملک میں قانون کی حمکرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم جمہوری اصولوں کی تکریم چاہتے ہیں، میتھیو ملر
  • وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے پیر کو پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی پر پابندی لگانے سے متعلق فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

ویب ڈیسک _ امریکہ نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے تحریکِ انصاف پر پابندی کے فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی واشنگٹن کے لیے باعثِ تشویش ہوگی۔

محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے میڈیا بریفنگ کے دوران پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں جاری کیے گئے بیانات دیکھے ہیں۔

ترجمان نے اپنے تبصرے میں کہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ سیاسی عمل کا آغاز ہے۔ لیکن یقیناً کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا ایک ایسی بات ہوگی جو ہمارے لیے بڑی تشویش کا باعث ہوگی۔"

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کو ایک پارلیمانی جماعت تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں کی حق دار ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔

SEE ALSO: پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان سے میڈیا بریفنگ کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ میں سیاسی تشدد اور جمہوریت پر مؤقف کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

ترجمان نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ امریکہ کے اپنے ملک اور دوسرے ملکوں میں سیاسی تشدد اور جمہوریت پر مؤقف میں کوئی تضاد ہے۔

میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک میں سیاسی تشدد کے خلاف ہے۔

ترجمان کے بقول، "ہم نے اس (سیاسی تشدد) کی مذمت کی ہے۔ ہم پاکستان سمیت ہر ملک میں قانون کی حمکرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم جمہوری اصولوں کی تکریم چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کی پاسداری کی جائے۔"

انہوں نے مزید کہا، یہ بات پاکستان پر بھی صادر ہے اور دوسرے ملکوں پر بھی۔

بریفنگ کے دوران پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے بارے میں بھی سوال اٹھایا گیا کہ بہت سے مہاجرین نے ایک شاعر کے قتل کے بعد پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے خلاف نعرے بازی کی جسے وائس آف امریکہ نے رپورٹ کیا۔

SEE ALSO: حکومت کا عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے اور تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان

ترجمان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو ان افغان مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں اور کیا امریکہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں لائے گا؟

ترجمان نے جواب میں کہا کہ وہ اس سوال کی بنیاد سے اتفاق نہیں کرتے۔

وائس آف امریکہ کے حوالے سے ترجمان نے واضح کیا کہ یہ ادارہ امریکی کانگریس کی فنڈنگ سے اپنا کام انجام دیتا ہے اور "اسے مکمل ادارتی آزادی حاصل ہے۔"

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما گیلا من وزیر اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔

گیلا من وزیر کا شمار پی ٹی ایم کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہیں گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تشدد کی وجہ سے گیلا من وزیر کے سر اور جسم کے دیگر حصوں میں شدید زخم آئے تھے۔

گیلا من کے ساتھیوں نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے رہنما آزاد داوڑ اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔