اطلاعات کے مطابق روس یوکرین کے علاقے ڈونباس میں اپنی فوجیں بھیج رہا ہے۔اور ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یورپ میں جنگ بھڑک اٹھنے کے امکان اور روس کے خلاف سخت تعزیروں کےسبب ایندھن کی منڈی میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ جس کا ممکنہ نتیجہ پیٹرول اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں بھاری اضافے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے راب گارور نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ چونکہ روس تیل اور قدرتی گیس پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ اس لئےاس کی پیداوار اور ترسیل میں خلل، خواہ اس کا سبب بلا ارادہ فوجی کارروائی ہو ، یا بین الاقوامی تعزیرات ، ایندھن کی قیمتوں پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ہیوسٹن سے وابستہ انرجی فیلو ایڈ ہرس کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی سپلائی میں خلل پڑ جائے تو پھر اس کی قیمت کا معاملہ انتہائی حساس ہو جاتا ہے اور وہ بڑھ جاتی ہیں۔
ایڈ ہرس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روس جتنی بھاری مقدار میں عالمی منڈی میں تیل برآمد کرتا ہے، اس کی سپلائی میں خلل پڑنے کی صورت میں ہم تیل کی قیمتوں میں20 سے 25 فی صد اضافے کی توقع کر سکتے ہیں۔اس کا مطلب ہے پٹرول کی خوردہ قیمتوں میں 50 سے75 سینٹ فی گیلن اضافہ۔
یوکرین میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کشیدگی بڑھنے کے سبب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے
SEE ALSO: تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر دگنا اضافہ؛ ’پاکستان میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہے‘پیر اور منگل کو امریکہ اور یورپ نے روس کے خلاف تعزیراتی اقدامات کی فہرست کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ ان میں سے بیشتر تعزیرات کا ہدف بینک اور دولت مند روسی تھے، اور یہ تعزیرات براہ راست روس کے انرجی سیکٹر کے خلاف نہیں تھیں۔
ان میں بس ایک استثنیٰ جرمن چانسلر اولاف شو لز کا یہ اعلان تھا کِہ جرمنی کی حکومت متنازع نورڈ اسٹریم ٹو پائپ لائن کی اجازت نہیں دے گی جس سے بحیرہ بالٹک کے راستے روس کی قدرتی گیس براہ راست جرمنی پہنچ سکتی ہے۔
چونکہ پائپ لائن سے ابھی فراہمی شروع نہیں ہوئی ہے، اس لیےشولز کے اس اعلان کا گیس کی موجودہ سپلائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔تاہم حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے پائپ لائن کی منظوری معطل کرنے کے فیصلے کو روس کی قدرتی گیس پر یورپ کا انحصار کم کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ امریکہ روس سے گیس کی اس کمی کو پورا کرنے لیے مائع قدرتی گیس یورپ بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
ادھر روس کے خلاف تعزیرات کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا کہ ان کے نتیجے میں امریکیوں کو بھی ایندھن کی زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے دفاع کے لیے ہمیں بھی یہاں اپنے ملک میں اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔ ہمیں اس بارے میں ایماندار اور صاف گو ہونا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت یہ یقینی بنانے کے اقدامات کرے گی کہ تعزیرات کا نقصان ہماری معیشت کو نہیں بلکہ روسی معیشت کو ہو۔
کرونا وائرس کی وبا کے سبب تیل اور قدرتی گیس کی منڈیوں میں اس سے پہلے ہی کافی بے یقینی کی فضا تھی جب کہ اس میں مزید اضافہ گزشتہ برس روس کی جانب سے یو کرین کی سرحد پر فوجیں جمع کرنے سے ہوا۔
وبا کے ابتدائی مراحل میں تیل اور گیس کی مِانگ میں عالمی سطح پر خاصی کمی ہو گئی تھی، اور اپریل 2020 میں تو ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ تیل کا اتنا ذخیرہ ہو گیا کہ قیمتیں منفی میں چلی گئیں یعنی تیل پیدا کرنے والوں کو اپنا تیل بیچنے کے لیےالٹا خریدارو ں کو پیسے دینے پر مجبور ہونا پڑا۔
لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی میں سینٹر فار انرجی اسٹڈیز کے ایسو سی ایٹ ریسرچ پروفیسر گریگوری اپٹان کہتے ہیں کہ ہرچند تیل کی مِانگ اب بڑی حد تک بحال ہو چکی ہے۔ لیکن تیل کی پیداوار وبا سے پہلے کی سطح سے اب بھی کم ہے اور یہ چیز بھی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کا ایک سبب ہے۔
اپٹان کہتے ہیں کہ اگر یو کرین میں جنگ کے سبب روسی تیل اور گیس کی سپلائی میں بڑے پیمانے پر کمی ہوتی ہے تو اس سےدوسرے تیل پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی، جس سے انرجی مارکیٹ میں منڈی اور کارو بار میں تیزی آئے گی۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سپلائی میں خلل نہیں پڑے گا۔انہوں نے بتایا کہ منگل تک یہ پیش گوئی کی جاتی رہی ہے کہ درمیانی مدت کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی ہو گی۔