کور کمانڈر لاہور کے ردِعمل پر بحث؛ کیا حملہ روکا جا سکتا تھا؟

کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے بعد پاکستان میں ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں مبینہ طور پر کور کمانڈر لاہور مشتعل مظاہرین کو توڑ پھوڑ سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک خاتون اور ایک نوجوان بھی بلوائیوں سے گفتگو کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کور کمانڈر لاہور لیفٹننٹ جنرل سلمان فیاض غنی ہیں جو اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اس وقت کور کمانڈر ہاؤس میں موجود تھے جب مشتعل مظاہرین نے وہاں دھاوا بول دیا تھا۔

بعض افراد کور کمانڈر لاہور کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے مظاہرین پر گولی چلانے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے پر اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ تاہم افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے ان قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ نہ کسی نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی کسی نے حکم عدولی کی۔

سوشل میڈیا پر بعض صارفین اس بات پر اطمینان کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ مشتعل مظاہرین نے کور کمانڈر اور اُن کے اہلِ خانہ کو نقصان نہیں پہنچایا، وہیں فوج کے اتنے بڑے افسر کی سیکیورٹی پر بھی سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ نے ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے کور کمانڈر کے عہدے پر فائز رہنے والے ریٹائر جنرل اور دفاعی اُمور سے متعلقہ تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

کور کمانڈر بہاولپور رہنے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس میں جو کچھ ہوا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ لاہور کے کور کمانڈر نے مشتعل مظاہرین کے سامنے جس طرح تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا وہ لائقِ تحسین ہے۔

اُن کے بقول دوسرا پہلو یہ ہے کہ مظاہرین کو یہ موقع نہیں دیا جانا چاہیے تھا کہ وہ گھر کے اندر داخل ہو جائیں، توڑ پھوڑ کریں اور آگ لگا دیں، اس سب کو روکا جا سکتا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

فوجی تنصیبات پر حملے: کیا 'ریڈ لائن' کراس ہو گئی؟

سینٹر فار ایئرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی سمجھتے ہیں کہ چھاؤنیوں میں کسی بھی جگہ کی حفاظت کے قواعد دفاعی تنصیبات کی نوعیت اور جگہ کے حوالے سے مختلف ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک ہی جیسے قواعد ہر جگہ لاگو نہیں کیے جا سکتے۔ آرمی پبلک اسکول سے لے کر آرمی چیف کی رہائش گاہ تک حفاظت کے مختلف قواعد ہوتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ کسی اعلٰی فوجی افسر کی رہائش گاہ کی حفاظت کے قواعد اُس جگہ سے مختلف ہوتے ہیں جس جگہ ہتھیار، اسلحہ خانوں، اسلحہ بنانے والے کارخانوں اور حساس ہتھیار رکھتے جاتے ہیں۔

'کور کمانڈر کے پاس انٹیلی جینس ذرائع بھی ہوتے ہیں'

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ خود اس صورتِ حال میں ہوتے تو انٹیلی جینس ذرائع کی مدد لیتے اور مظاہرین کو دُور رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کرتے۔ وہ پولیس کا استعمال کرتے یا دیگر مختلف طریقوں سے مظاہرین کو کور کمانڈر ہاؤس سے دور رکھتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ایک طرف تو جنرل صاحب (لیفٹیننٹ جنرل سلمان غنی) کا جذبہ اچھا ہے کہ اپنے لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے لیکن دوسری طرف سرکاری املاک کو اُن کے حوالے کر دینا جس کا وہ جو مرضی کریں یہ درست نہٰیں ہے۔"

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ حالات کی نزاکت جانتے ہوئے پہلے ہی ایسے انتظامات ہونے چاہیے تھے کہ مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس تک پہنچ ہی نہ پاتے۔

'فوج پولیس کی طرح ہوائی فائر نہیں کرتی'

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال نہ کرنا ایک الگ فیصلہ ہے، لیکن یہ فیصلہ کہ مشتعل مظاہرین کو اندر گھسنے دیں یہ بالکل الگ فیصلہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ کور کمانڈر پولیس کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ اگر پولیس کو کہا جاتا کہ مظاہرین کو روکا جائے تو پولیس کور کمانڈر کی بات مانتی۔ اِس کے علاوہ وہ فوجی سیکیورٹی کو بھی کہہ سکتے تھے کہ مظاہرین کو روکا جائے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ فوج، پولیس کی طرح ہوائی فائر نہیں کرتی کیوں کہ ان کو ہوائی فائر کا حکم نہ ہوتا۔

SEE ALSO: لاہور کا کورکمانڈر ہاؤس جو کبھی بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی ملکیت بھی تھا

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بظاہر کور کمانڈر لاہور کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اُن کے بقول شاید کور کمانڈر صاحب کا خیال تھا کہ مظاہرین زیادہ سے زیادہ رہائش گاہ کے باہر دھرنا دیں گے اور نعرے بازی تک محدود رہیں گے۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ سول حکومت بھی جب امن و امان کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرتی ہے تو فوج مشتعل مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرتی ہے۔

اُن کے بقول فوج بلوائیوں کو حساس مقامات سے دُور رکھنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپناتی ہے تاکہ فوج اور عوام کا آمنا سامنا نہ ہو اور تشدد کا راستہ استعمال نہ کرنا پڑے۔

خیال رہے کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس پی آر) کا بیان آیا تھا جس میں اُنہوں نے کہا کہ تھا کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں تحمل کا مظاہرہ کیا۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ مذموم منصوبہ بندی کے تحت ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ فوج اپنا ردِعمل دے جس کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ تاہم فوج کے میچور ریسپانس نے اس سازش کو ناکام بنایا۔