انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان سرکاری اہلکاروں، سیکیورٹی فورسز اور بعض اوقات ان کے رشتے داروں کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ البتہ طالبان نے انتقامی کارروائیوں کی تردید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ طالبان کی انتقامی کارروائیاں ان کے دعوؤں کے برعکس ہیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغان حکومت، امریکہ اور نیٹو فورسز کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔
عالمی تنظیم کی طرف سے یہ الزام ایسے وقت میں لگایا گیا ہے جب طالبان افغانستان کے، مختلف علاقوں پر تیزی سے قابض ہو رہے ہیں اور افغان سیکیورٹی فورسز کو ان علاقوں کے دفاع میں مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکہ میں قائم عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ حال ہی میں جنوبی صوبے قندھار میں طالبان نے معروف مزاح نگار نذر محمد جو کہ خاشہ زوان کے طور پر جانے جاتے تھے، ہلاک کیا ہے۔
نذر محمد معمول میں اپنے گانوں اور لطیفوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹک ٹاک' پر پوسٹ کیا کرتے تھے اور وہ افغان پولیس کے لیے بھی کام کر چکے تھے۔
تنظیم کے مطابق طالبان نے اسے اس کے گھر سے حراست میں لیا اور اسے گولی مار کر ہلاک کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا۔
SEE ALSO: افغانستان: طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والا خاشہ زوان کون تھا؟ایچ آر ڈبلیو کے ایشیا کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریکا گوس مین کا کہنا ہے کہ طالبان نے بظاہر خاشہ زوان کو اس لیے ہلاک کیا کیوں کہ وہ طالبان رہنماؤں کی مذاحیہ ویڈیوز بناتے تھے۔
گوس مین کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان کی ہلاکت اور حالیہ واقعات طالبان کمانڈرز کے ہلکی پھلکی تنقید کو بھی ختم کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔
خاشہ زوان کی ویڈیو، جس میں مسلح افراد انہیں زدو کوب کر رہے ہیں، نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو مجبور کیا کہ وہ اعتراف کریں کہ اس واقعے کے پیچھے طالبان تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ خاشہ زوان کو طالبان کی عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے نہ کہ اسے ہلاک کرنا تھا۔
عالمی تنظیم کی طرف سے طالبان کمانڈرز پر قندھار میں حکومتی اور پولیس اہل کاروں کو حراست میں رکھنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گوس مین کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی پیش قدمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ناقدین کو بے دردی سے نشانہ بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے رہنما عمومی طور پر ان کارروائیوں کو رد کرتے ہیں تاہم ان کے بقول یہ حملے ان کے جنگجو کرتے ہیں اور یہ طالبان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ہلاکتوں کو روکیں۔
امریکہ کی طرف سے بھی خاشہ زوان کی ہلاکت کی مذمت کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ طالبان کی طرف سے حالیہ کارروائیوں میں تیزی رواں سال مئی میں امریکی نیٹو فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے بعد دیکھی گئی۔
افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کا انخلا مکمل ہونے کے قریب ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم کے مطابق رواں سال 31 اگست تک یہ انخلا مکمل ہو جائے گا۔