خالد احمد افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کے رہائشی ہیں۔ وہ بارہویں جماعت کے طالبِ علم ہیں جو ملک کی موجودہ صورتِ حال کے باعث اپنی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔
افغانستان کے شمال میں متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان اب جنوب مشرقی علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ اس وقت مشرقی صوبے قندھار میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
لڑائی کے باعث جہاں ایک جانب ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہیں کرفیو، بجلی و موبائل فون سروسز کی بندش کے باعث خالد احمد جیسے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خالد احمد نے کہا کہ قندھار شہر گزشتہ ایک ماہ سے بجلی سے محروم ہے۔ لوگ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم رات کے وقت یہ سہولت محدود ہو جاتی ہے اور شہر مکمل تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔
موبائل نیٹ ورکس کی سروسز کی بندش
قندھار کے شہریوں کے لیے موبائل نیٹ ورکس کی سروسز کی بندش بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی کے باعث موبائل فون سروسز رات 10 بجے سے صبح چار بجے تک بند رہتی ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق موبائل فون سروسز فراہم کرنے والی کمپنیاں ایسا طالبان کے دباؤ میں کر رہی ہیں تاکہ رات کو نہ تو کوئی ان کی لوکیشن کی مخبری حکومتی فروسز کو کر سکے اور نہ ہی حکومت جی پی ایس کے ذریعے انہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو۔ تاہم طالبان ایسے دعوؤں کی ترید کرتے ہیں۔
خالد احمد کا کہنا ہے کہ دن کے وقت جب وہ آن لائن کلاس سے فارغ ہوتے ہیں تو شام یا رات کے اوقات میں انہیں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کا ہوم ورک نہیں ہو پاتا۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے کرونا وبا، پھر طالبان اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جاری لڑائی کے بعد اب بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش نے ان کی تعلیم پر منفی اثر ڈالا ہے۔
خالد کو خدشہ ہے کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو ان کا تعلیمی سال ضائع ہو سکتا ہے۔
تاجر برادری بھی شدید مشکلات کا شکار
دارالحکومت کابل کے بعد قندھار افغانستان کا دوسرے بڑا اور قدیم شہر ہے جو بھیڑ، اون، کپاس، اشیائے خور و نوش، تازہ خشک میوہ جات اور تجارتی مرکز کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
قندھار کے کنٹرول کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ سے شدید لڑائی جاری ہے۔ ایسے میں تاجر برادری بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے قندھار کو افغانستان میں بزنس کے گیٹ وے کی حیثیت حاصل ہے اور لڑائی کے باعث راستے مکمل طور پر بند ہیں اور قندھار شہر کا تجارتی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے۔
تاج اکبر گزشتہ 30 سال سے قندھار شہر میں کریانے کی دکان چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشیدہ صورتِ حال سے قبل وہ رات گئے اپنی دکان کھلی رکھتے تھے۔ تاہم جب سے حالات خراب ہوئے ہیں وہ عصر کے بعد اپنی دکان بند کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے سپلائی لائن بند ہے اور بیشتر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
سید محمد درد قندھار میں غذائی اجناس کی پراسسنگ کی فیکٹری کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے۔ موٹر سائیکل کی سواری پر مکمل پابندی ہے اور رات کو 10 بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو نافذ رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قندھار شہر میں ایک ماہ سے بجلی کی فراہمی معطل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی فیکٹری کو قلیل وقت کے لیے جنریٹر پر چلاتے ہیں۔
سید محمد درد کا مزید کہنا تھا کہ امن و امان کی ناقص صورتِ حال کی وجہ سے فیکٹری میں اب صرف 10 ملازم کام کرتے ہیں اس سے قبل ملازمین کی تعداد 80 تھی۔
ان کے بقول اگر یہی صورتِ حال رہی تو قندھار شہر اور گرد و نواح میں غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔