قبائلی اضلاع کے خیبر پختوانخوا میں انضمام کے بعد فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کا خاتمہ تو ہو گیا اور اب ان اضلاع میں پاکستانی قوانین کا اطلاق ہو رہا ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں، قبائلی رہنما اور انسانی حقوق کے تنظیمیں امن کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص قبائلی اضلاع میں امن کمیٹیوں اور امن لشکروں کی تشکیل ابتدا ہی سے متنازع رہی ہے کیوں کہ ان امن کمیٹیوں اور لشکروں میں زیادہ تر وہی لوگ شامل رہے جو اس سے پہلے عسکریت پسندی یا جرائم میں ملوث تھے۔
افغانستان پر حملہ اور عسکریت پسندوں کی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد جب افغانستان پر امریکہ اور اتحادیوں نے حملہ کیا اور یہاں دہشت گردوں کے خلاف جنگ شروع کی تو افغانستان میں موجود مقامی اور غیر ملکی جنگجو سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوئے۔
مقامی سیاسی رہنماؤں کے مطابق اس دوران القاعدہ سے منسلک سیکڑوں غیر ملکی بالخصوص عرب جنگجوؤں کو گرفتار کرکے امریکہ اور اتحادی افواج کے حوالے بھی کیا گیا جب کہ القاعدہ سے منسلک تحریک طالبان افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں جنگجوؤں نے ہم خیال عسکریت پسندوں کے تعاون سے پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں پناہ لی۔
کچھ ہی عرصے کے بعد یہ عسکریت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پُر تشدد کارروائیاں کی وجہ سے بدامنی کا سبب بننے لگے اور ریاستی عمل داری کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ عسکریت پسند تنظیموں نے نئی بھرتی اور تربیت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد سب سے پہلے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں نیک محمد نامی جنگجو کمانڈر نے ریاستی عمل داری کو چیلنج کیا تھا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپریل 2004 میں حکومت نے ایک معاہدہ کیا۔ جس کے تحت نیک محمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
ریاست کے ساتھ اس معاہدے کے بعد کمانڈر نیک محمد کی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ صلح ہو گئی مگر امریکہ اور اتحادیوں کے نظر میں وہ ایک رکاؤٹ کے طور پر سامنے آئے۔ بالاخر 18 جون 2004 ان کو امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں وہ مارے گئے۔
اس کے بعد جنوبی وزیرستان میں سرکردہ اور بااثر قبائلی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی۔ ٹارگٹ کلنگ کا یہ سلسلہ بعد میں شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع تک پھیل گیا۔
جنوبی وزیرستان کے احمد زئی وزیر قبیلے کے زیرِ تسلط علاقوں میں وسط ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ زور پکڑتا گیا۔ اس علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کی اکثریت 'ازبکستان اسلامک موومنٹ' سے منسلک تھی جب کہ محسود قبائل کے زیرِ تسلط علاقوں میں بیتِ اللہ محسود اور ان کے بااعتماد جنگجوؤں نے کالعدم ‘تحریک طالبان پاکستان’ کے ٹھکانے قائم کیے جس سے عام لوگوں میں خوف وہراس پھیلانا شروع ہو گیا۔
عسکریت پسندوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
جنوبی وزیرستان میں کمانڈر نیک محمد کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد شمالی وزیرستان میں بھی وہی عسکریت پسند سر اٹھانے لگے۔ جو افغانستان میں روس کے خلاف لڑائی میں مختلف افغان گروہوں بالخصوص شمالی وزیرستان کےڈانڈے درپہ خیل میں مقیم مولوی جلال الدین حقانی کے جنگجوؤں میں شامل رہے تھے۔
افغانستان سے ملحقہ باجوڑ کے مختلف مقامات ڈمہ ڈولہ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں نے امریکہ کے خلاف غم و غصے میں اضافہ کیا۔
شدت پسند نظریات کے حامل افراد نے از خود مختلف مقامات پر امریکہ اور پاکستان کی فوج کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جب کہ عسکریت پسندوں نے قوم پرست رہنماؤں اور شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے ساتھ ساتھ اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر سرکاری املاک پر بم حملے شروع کر دیے تھے۔
سوات میں عسکریت پسندی
سوات کو روشن خیال لوگوں کا مرکز کہا جاتا رہا ہے۔ مگر اس علاقے میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں ‘شریعت محمدی’ کے نفاذ کے لیے مولانا صوفی محمد نے ‘تحریک نفاذ شریعت محمدی’ بنائی تھی جس نے طالبان جنگجوؤں کو سوات میں اپنا بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔
مولانا صوفی محمد کا تعلق سوات سے ملحق ضلع دیر کے علاقے میدان سے تھا، ان کے ایک داماد باجوڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ اس کے بعد ان کے داماد کے بھائی مُلا فضل اللہ پُراسرار طور پر نہ صرف جنگجو کمانڈر بن کر سامنے آئے بلکہ انہوں نے سوات میں باقاعدہ طور پر تحریک طالبان پاکستان سوات قائم کی اور سوات میں ریاستی عمل داری کو مفلوج بنا دیا۔
سوات کے بعد باجوڑ اور مہمند میں بھی جنگجوؤں نے متحرک ہو کر ازخود تحریک طالبان پاکستان کی تنظیمیں قائم کرنا شروع کر دیں۔
اس صورت حال میں باجوڑ اور مہمند سے ہزاروں لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر پشاور کے نواحی علاقے کچہ گڑھی اور نوشہرہ کے جلوزئی کے مہاجر کیمپوں میں عارضی رہائش اختیار کر لی۔ ان کیمپوں سے افغان مہاجرین واپس جا چکے تھے۔
فوجی آپریشن کے بعد امن لشکر اور کمیٹیوں کا قیام
عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے باجوڑ، مہند اور خیبر کے مختلف علاقوں میں پاکستان کی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی۔ ان کارروائیوں کی کامیابی اور عسکریت پسندوں کے خاتمے کے بارے میں دعوے کیے گئے جب کہ مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف امن کمیٹیاں اور امن لشکر قائم کیے گئے۔
پشاور سے ملحقہ خیبر میں ایک طرف مشتبہ طالبان جنگجوؤں نے پُر تشدد کارروائیاں شروع کیں تو دوسری طرف سب سے اہم اور حساس تحصیل باڑہ میں بیک وقت دو ایسی تنظمیں قائم ہوئیں جنہوں نے اس علاقے میں ریاستی اداروں کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔
ان تنظیموں میں ایک منگل باغ کی سربراہی میں 'لشکر اسلام' اور دوسری سیف الرحمٰن کی 'انصار الاسلام' تھی۔
خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے پشاور کے سابق کور کمانڈر جنرل ریٹائرڈ علی محمد جان اور کزئی کو خیبر پختونخوا کا گورنر بنایا۔
ایک قبائلی ہونے کے ناطے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئیں۔ انہی کے تعاون سے شمالی وزیرستان کے جنگجوؤں کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے 5 ستمبر 2005 کو ایک معاہدہ کیا تھا۔
نیک محمد کی طرح اس معاہدے میں عسکریت پسندوں نے حکومتی اداروں، سرکاری املاک اور سیکیورٹی فورسز پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جب کہ اس کے بدلے میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ضمانت دی گئی۔
ان شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان کے مختلف دیہات میں ٹھکانے اور مراکز قائم کیے تو دوسری طرف یہاں کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ اسی طرح کی صورت حال جنوبی وزیرستان میں بھی تھی۔
حکومت نے مارچ 2007 میں جنوبی وزیرستان میں ازبک جنگجوؤں کے خلاف اچانک کارروائی شروع کی جب کہ کارروائی کے خاتمے پر جنگجوؤں کے وانا سے نکلنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی احمد زئی وزیر قبیلے کے روایتی جرگے کے ذریعے عسکریت پسند کمانڈر مُلا نذیر کی سربراہی میں امن کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
مُلا نذیر کو بھی امریکہ نے ڈورن حملے میں نشانہ بنایا۔ مُلا نذیر کی ہلاکت کے بعد بہاول خان وزیر المعروف صلاح الدین ایوبی کو امن کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔
اس کمیٹی میں شامل جنگجوؤں کو نہ صرف وانا میں آزادانہ طور پر گشت کی آزادی ملی بلکہ انہوں نے علاقے کے با اثر اور کاروباری شخصیات سے ماہانہ بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا۔ بھتہ وصولی کا سلسلہ مبینہ طور پر اب بھی جاری ہے۔
فروری 2008 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ ہی دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
پشاور کو کوہاٹ سے ملانے والی پٹی درہ آدم خیل شمالی وزیرستان اور خیبر کے بعد دہشت گردوں کا بہت بڑا مرکز بنا ہوا تھا جب کہ یہاں پر موجود دہشت گردوں نے نہ صرف پشاور بلکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔ اس دوران پشاور کے درہ آدم خیل سے ملحقہ بڈھ بیر، متنی اور دیگر علاقوں میں امن کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔
اس وقت صوبے میں برسرِ اقتدار عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں، بعد ازاں پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) نے ان امن کمیٹیوں کی تشکیل، اختیارات اور طریقہ کار پر اعتراض کیا۔
قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد امن کمیٹیوں کی قانونی حیثیت
سن 2018 میں پی ٹی ایم کا قیام عمل میں آیا تو مبینہ طور پر امن کمیٹی کے جنگجوؤں نے اس تحریک کے بانی رہنما علی وزیر کے گھر پر حملہ کیا۔ جس میں وہ بال بال بچے۔
انتخابات میں امن کمیٹی کی مخالفت کے باوجود علی وزیر کامیاب ہوئے۔ تاہم وہ مقامی امن کمیٹی کی حمایت کے حصول میں ناکام رہے۔ گزشتہ ماہ علی وزیر کے چچا زاد بھائی ایاز وزیر ایک حملے میں ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد پشتون تحفظ تحریک اور عوامی نیشنل پارٹی نے امن کمیٹی کی تحلیل کا مطالبہ کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد قبائلی علاقوں میں امن کمیٹیوں کی تشکیل، اختیارات اور فرائض پر بحث ہو رہی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اب امن و امان قائم کرنا سول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ لہذٰا اس قسم کی امن کمیٹیوں کی تشکیل کی ضرورت نہیں ہے۔
بعض ناقدین کے مطابق امن کمیٹیوں کے قیام کے بعد سیکیورٹی فورسز نے اپنے آپ کو ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔