پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے اُمیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر روایتی سیاست دانوں کی اکثریت کو ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر بھی پسند نا پسند دیکھی جاتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دانیال عزیز، طلال چوہدری، عائشہ رجب اور چوہدری جعفر اقبال سمیت دیگر کو ٹکٹ نہیں دیا جس پر بعض اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
دانیال عزیز کہتے ہیں کہ اُنہیں پارٹی کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے، لہذٰا وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا نہیں کیں، ناراضگیاں ہر جگہ ہوتی رہتی ہیں۔
فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کی رہنما عائشہ رجب بھی پارٹی قیادت کے فیصلے سے مایوس ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے خاوند مسلم لیگ (ن) سے ایم این اے رہے ہیں اور وہ خود بھی مخصوص نشستوں پر رُکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔ اس مرتبہ پارٹی قیادت نے اُن کے صاحبزادے کو ٹکٹ دینے کا کہا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے تاحال اپنے امیدواروں کا حتمی اعلان نہیں کیا جب کہ پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان بلے سے متعلق عدالتی فیصلے کا بھی انتظار ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اُمیدواروں کا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔
تجزیہ کار اور کالم نویس چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں گزشتہ دو ماہ سے امیدواروں کا انتخاب ہی کر رہی ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں عام انتخابات؛ کیا نوجوان ووٹرز 'الیکٹیبلز' کے لیے خطرہ ہیں؟وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر ٹکٹوں کی تقسیم کا پرانا رجحان ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن ٹکٹ کس کو ملے گا اس کا حتمی فیصلہ پارٹی لیڈر ہی کرتا ہے۔
اُن کے بقول ایسے میں جو اُمیدوار لیڈر کے قریب ہوتا ہے وہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ سالہا سال سے پارٹی کے ساتھ وفادار رہنے اور قربانیاں دینے والے کارکن نظرانداز ہو جاتے ہیں۔
حسن عسکری کے بقول سیاسی جماعتیں یہ بھی دیکھتی ہیں کہ اُمیدوار کی مالی حیثیت کیا ہے۔ کیا وہ الیکشن میں پیسہ خرچ کر سکتا ہے یا نہیں۔
اُن کے بقول اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اُمیدوار کی ذات برادری کتنی مضبوط ہے اور مقامی سطح پر اس کا کتنا اثرو رسوخ ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ اور انتخابات پر نظر رکھنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نمائندے رشید چوہدری کہتے ہیں کہ گو کہ وہ الیکشن سے قبل اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر سکتے، لیکن انتخابات کے بعد وہ اس سارے عمل پر اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی شامل ہو گا کہ کس طرح کے لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے گئے، ماضی میں اُن کا کردار کیسا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے جس کا سیاسی جماعتوں کو خیال رکھنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں امیدواروں کا انتخابات کرتے وقت زمینی حقائق دیکھتی ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے ایسے اُمیدوار کو ٹکٹ دیا جائے جو جیتنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں پارٹی کے اندر جمہوریت نہ ہونے کے تاثر کو رد کرتی رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما مختلف مواقع پر یہ کہتے رہے ہیں کہ پارٹی میں فیصلے مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ جب کسی دوسری جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا جاتا ہے تو پھر لامحالہ اس جماعت کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کی مثال دیتے ہوئے حسن عسکری کا کہنا تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) کو انہیں بھی ساتھ لے کر چلنا ہے اور کچھ حلقوں میں اُنہیں ایڈجسٹ کرنا پڑے گا جس سے لامحالہ ناراضگیاں بھی ہوں گی۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستوں پر اُمیدواروں کا اعلان نہیں کیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ استحکامِ پاکستان پارٹی کے علیم خان اور عون چوہدری کی ان نشستوں پر حمایت کی جائے گی۔
کیا موروثی سیاست کی بھی جھلک نظر آ رہی ہے؟
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ گو کہ سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کی نفی کرتی ہیں، لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی گھر میں تین، چار ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پارٹی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں تو اُن کی صاحبزادی مریم نواز بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ اِسی طرح نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو وہیں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی پارٹی ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو آصف علی زرداری نواب شاہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ بلاول بھٹو لاڑکانہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے صاحبزادوں کو بھی ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں۔
اسی طرح سابق وزیرِ اعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ کے اہلِ خانہ میں شامل افراد کو بھی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔
حسن عسکری رضوی کے مطابق پاکستان میں موروثی سیاست ختم نہیں ہوئی کیوں کہ حلقوں میں خاندانوں کا اثر ہوتا ہے۔ لہذٰا باہر کے فرد کے بجائے خاندان کے فرد کو ہی ٹکٹ دینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔