امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کو ووٹ کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
امریکہ میں قانون سازی کرنے والے دو ایوانوں میں ایک سینیٹ اور دوسرا ایوانِ نمائندگان کہلاتا ہے۔ ایوانِ نمائندگان میں اس وقت ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور عہدے سے برطرف ہونے والے کیون میکارتھی کا تعلق بھی اسی پارٹی سے تھا۔
اس وقت ری پبلکن پارٹی اسپیکر کے انتخاب اور دیگر امور پر شدید باہمی اختلافات کا شکار ہے۔ ان حالات میں آئندہ اسپیکر کا انتخاب کیسے ہوگا؟ اور یہ صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرے گی؟ اس کے اہم نکات یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔
کیا اسپیکر کی کرسی خالی ہے؟
منگل کو ایوانِ نمائندگان میں 210 کے مقابلے میں 216 ووٹ مخالفت میں آنے کے بعد اسپیکر کیون میکارتھی کو اسپیکرشپ چھوڑنا پڑی۔ اس کے بعد ایوان میں ان کے اتحادی تصور ہونے والے پیٹرک مک ہینری کو بہت محدود مدت کے لیے قائم مقام اسپیکر بنا دیا گیا ہے۔ ان کی یہ مدت قانون سازی کرنے کے تین دن تک محدود ہو گی۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے قواعد میں قائم مقام اسپیکر کی ذمے داریاں واضح نہیں ہیں۔ وہاں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ قائم مقام اسپیکر اگلے اسپیکر کے انتخاب تک اس عہدے کی ذمے داریاں ادا کر سکتا ہے۔
اسپیکر ایوان میں قانون سازی کا ایجنڈا طے کرتا ہے تاہم ایوان میں اکثریتی لیڈر چیمبر میں اسپیکر کے ساتھ مل کر ان بلز کا تعین کرتا ہے جن پر بحث یا رائے شماری کرنا ہوتی ہے۔
SEE ALSO: امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسپیکر کو ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیاری پبلکن نمائندے کیلی آرمسٹرانگ کے مطابق مک ہینری صرف ایوان کے لیے نیا اسپیکر منتخب کرنے کا کام کریں گے اور اگر انہوں نے اس سے ہٹ کر کوئی اقدام کیا تو انہیں برطرف کرنے کے لیے قدم اٹھایا جائے گا۔
حکومت کے فنڈنگ بلز کا کیا ہوگا؟
اسپیکر کا انتخاب ہونے تک حکومتی اخراجات کے لیے مںظور ہونے والے بلوں پر مزید کام نہیں ہو گا۔ اس وقت ایوانِ نمائندگان کو 17 نومبر کی ڈیڈ لائن کا سامنا ہے جس کے اندر انہیں اخراجات کی مںظوری دینی ہے بصورتِ دیگر امریکہ میں جزوی طور پر حکومت کی بندش ہو سکتی ہے۔
ری پبلکن قانون سازوں کا کہنا ہے کہ انہیں نئے اسپیکر کے انتخاب کے لیے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہو گا۔ اس وقت کے باعث حکومتی اخراجات کے لیے متعین مہلت کا کافی وقت صرف ہو جائے گا۔
حکومتی اخراجات میں بڑی کٹوتیاں نہ ہونے اور کئی اخراجات کے بل منظور ہونے کی وجہ سے ری پبلکن قدامت پسندوں نے کیون میکارتھی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان ری پبلکنز کی قیادت میٹ گیٹس کر رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کیا کررہے ہیں؟
امریکہ کے 435 رکنی ایوان میں اس وقت ری پبلکنز کی تعداد 221 ہے جب کہ ڈیموکریٹس کے 212 ارکان ہے۔ دونوں ہی جماعتیں اسپیکر کے لیے امیدوار میدان میں اتارنے کی تیاری میں ہیں۔
ڈیموکریٹس کے لیے امیدوار کا تعین قدرے آسان ہو گا کیوں کہ ان کی اکثریت رواں برس جنوری میں اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لینے والے حکیم جیفریز کی حامی ہے۔
تاہم ری پبلکنز کے لیے سخت گیر قدامت پسند گروپ کی وجہ سے امیدوار کا انتخاب مشکل مرحلہ ہوگا۔ یہ گروپ حکومتی اخراجات میں بڑی کٹوتیاں چاہتا ہے۔
قائم مقام اسپیکر کی ذمے داریاں ادا کرنے والے مک ہیری کو دیگر امیدواروں پر برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ تاحال واضح نہیں کہ وہ خود بھی اس کے لیے تیار ہیں کہ نہیں۔ میکارتھی پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اسپیکر شپ کے لیے دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔
اس سے قبل ایوانِ نمائندگان کو ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں رہا اور تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ اسپیکر کا انتخاب کب تک ممکن ہو پائے گا۔ عام طور پر امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کا انتخاب ہر دو سال بعد ہونے والے وسط مدتی الیکشن کے بعد جنوری میں ہوتا ہے۔
SEE ALSO: مڈ ٹرم الیکشن: امریکہ میں ہر دو سال بعد انتخابی میدان کیوں سجتا ہے؟اسپیکر کا الیکشن کب ہو گا؟
ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیز کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ وہ کب اسپیکر کے الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ رواں برس جنوری میں میکارتھی کا بطور اسپیکر انتخاب مطلوبہ ووٹ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے 15 بار رائے شماری کے بعد ممکن ہوا تھا۔
تاہم توقع کی جارہی ہے کہ 2024 میں درپیش الیکشن کی وجہ سے ری پبلکن اس بار اسپیکر کے انتخاب کو ہنگامہ خیزی کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ری پبلکنز کو اندازہ ہے کہ اس مرحلے پر اختلافات کے اظہار سے انہیں آئندہ الیکشن میں عوامی ردِعمل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
الیکشن میں کون حصہ لے سکتا ہے؟
امریکہ کے آئین کے مطابق ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کے لیے ایوان کا رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ری پبلکن اسپیکر کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام بھی تجویز کررہے ہیں۔
ٹرمپ اس وقت صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی تیاری کررہے ہیں اور خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اسپیکر کے عہدے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔