سن 2011 میں جب نریندر مودی نے ریاست گجرات کی وزارتِ اعلیٰ سے ایک قدم آگے بڑھ کر قومی سطح کی سیاست میں آنے کا عندیہ دیا تو اس وقت سے بھارتی میڈیا میں یہ سوال تواتر سے اٹھایا جاتا تھا کہ کیا وہ ’گودھرا کے آسیب‘ سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے؟
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی گزشتہ ہفتے نشر ہونے والی دستاویزی فلم ’انڈیا دی مودی کوئشچن‘ نے ایک بار پھر اس ’آسیب‘ کو زندہ کردیا ہے۔
بھارت کی ریاست گجرات میں 27 فروری 2002 کو گودھرا اسٹیشن پر سابر متی ایکسپریس کی آتش زدگی کے نتیجے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 59 ہندو جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد پورے گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ان فسادات میں ریاستی حکومتی مشینری اور پولیس کے کردار پر ماضی میں بھی سوال کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت ریاست کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی پر یہ الزامات بھی عائد کیے گئے تھے کہ انھوں نے پولیس کو فسادات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے مشتعل ہجوم کے خلاف کارروائی سے روک دیا تھا۔
سن 2011 میں سپریم کورٹ کی تشکیل دی گئی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو بی جے پی اور اس کے حامی حلقے نریندر مودی کے لیے ’کلین چٹ‘ قرار دیتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ایس آئی ٹی نے قرار دیا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف فسادات میں پولیس کو کارروائی سے روکنے کے احکامات دینے کے شواہد نہیں مل سکے۔ لیکن ناقدین کے مطابق یہ رپورٹ نریندر مودی کو فسادات میں کردار سے بری الذمہ قرار نہیں دیتی۔
SEE ALSO: راہل گاندھی کی 'بھارت جوڑو یاترا' کشمیر پہنچ گئی، 'اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین پر آیا ہوں'’مودی کا سوال‘
نریندر مودی کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم’انڈیا: دی مودی کوئشچن‘ کے دو حصے ہیں۔ ان میں سے پہلا حصہ گزشتہ منگل کو نشر کیا گیا تھا جب کہ دوسری اور آخری قسط منگل 24 جنوری کو نشر کی جائے گی۔
دستاویزی فلم کے پہلے حصے میں گجرات میں ہونے والے 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات میں نریندر مودی کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نریندر مودی اس وقت ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔
اس دستاویزی فلم میں 2002 کے دوران گجرات فسادات پر رپورٹ دینےوالی بی بی سی کی سابق نامہ نگار جل مکگورنگ، اس وقت برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ جیک اسٹرا، بی جے پی کے سابق رکن راجیہ سبھا اور صحافی سوپن داس گپتا، نریندر مودی پر الگ الگ کتابوں کے مصنفین نیلنجن مکھ اپادھیائے اور کرسٹوف جیفرلو، گجرات فسادات کے متاثرین میں شامل عمران داؤد اور امتیاز پٹھان، بی جے پی کے سبرمنیم سوامی، تحقیقاتی صحافی ہرتوش سنگھ بل اور ایک برطانوی سفارت کار سمیت دیگر کی آرا شامل کی گئی ہیں۔
دستاویزی فلم میں شرکا کی آرا کے علاہ نریندر مودی کے پرانے انٹرویوز اور خبروں کے آرکائیو کے متعلقہ حصے بھی شامل ہیں۔
دستاویزی فلم میں نیا کیا ہے؟
بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات پر عدالت کے حکم پر ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ کے علاوہ متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ماضی میں بھارت کے مقامی میڈیا میں بھی اس پر تفصیلی رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔
تاہم گزشتہ ہفتے بی بی سی کی دستاویزی فلم کے پہلے حصے میں پہلی بار برطانوی سفارت کاروں کی ایک غیر مطبوعہ اور خفیہ رپورٹ کے حوالے سے بعض ایسے نکات سامنے لائے گئے ہیں جس میں نریندر مودی کو فسادات کے لیے معاون ماحول فراہم کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کے مجرموں کی رہائی غیر منصفانہ ہے: امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادیدستاویزی فلم میں اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ جیک اسٹرا نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت ایک اہم ملک ہے اس لیے گجرات کی صورتِ حال پر برطانوی حکومت بھی نظر رکھے ہوئے تھی اور چوں کہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں، اس لیے بہت محتاط انداز میں اس معاملے کو دیکھنا تھا۔
انہوں ںے بتایا کہ برطانیہ نے فسادات کے بعد ایک تحقیقاتی ٹیم بنا کر گجرات بھیجی تھی جس نے ایک مفصل رپورٹ تیار کی تھی۔
بعد ازاں اس ٹیم کی رپورٹ سفارتی کیبل کے طور پر برطانیہ بھیجی گئی اور بی بی سی کی دستاویزی فلم میں پہلی بار اس کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کے بنیادی حقائق میں یہ بات شامل تھی کہ فسادات میں تشدد کے واقعات اس سے کہیں زیادہ تھے جتنے رپورٹ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر منظم انداز میں مسلم خواتین کا ریپ کیا گیا۔ تشدد کا محرک سیاسی تھا اور اس میں مسلمانوں کی نسل کشی کے عزائم واضح تھے۔
دستاویزی فلم میں پہلی مرتبہ اس تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ایک برطانوی سفارت کار کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جنھوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی ہے۔
مذکورہ سفارت کار کے مطابق گجرات میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں کم از کم دو ہزار افراد کو قتل کیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ تشدد کا مقصد منظم انداز میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنا تھا اور اس میں ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نامی تنظیم نے منظم کردار ادا کیا۔
SEE ALSO: ’شرپسندوں کو 2002 میں سبق سکھا دیا تھا‘؛ گجرات فسادات پرامت شاہ کے بیان پر تنازعرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وی ایچ پی کو ریاستی حکومت کی جانب سے چھوٹ نہ دی جاتی تو تشدد زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کو براہِ راست ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
نریندر مودی سے متعلق رپورٹ میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے غیر معمولی دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی نے 27 فروری 2002 کو سینیئر پولیس حکام سے ملاقات کی تھی۔ اس اجلاس میں انہوں نے پولیس حکام کو فسادات میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
اگرچہ پولیس ذرائع نے ان رپورٹس کی تردید کی لیکن تحقیقاتی ٹیم میں شامل سفارت کار کا کہناہے کہ مودی کے براہ راست احکامات سے متعلق اطلاعات متضاد تھیں۔ البتہ یہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا کہ حالات کو قابو نہیں کیا گیا اور دنگا کرنے والوں کو چھوٹ دی گئی۔ ان کے بقول اس کی ذمے داری نریندر مودی پر عائد ہوتی ہے۔
اس بارے میں جیک اسٹرا کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہلا دینے والے دعوے تھے کہ نریندر مودی نے سیاسی اختیارات کے استعمال سے پولیس کو مسلمان اور ہندو دونوں کمیونٹیز کے تحفظ سے روکا۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں یہ نکات سامنے آنے کے بعد برطانیہ کے پاس محدود آپشنز تھے۔ ہم بھارت سے سفارتی تعلقات تو ختم نہیں کرسکتے تھے۔
پولیس کا کردار
دستاویزی فلم کے مطابق اسی دور میں یورپی یونین کی تحقیقات میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ نریندر مودی کی کابینہ میں شامل ریاستی حکومت کے وزرا بھی براہ راست تشدد میں ملوث تھے اور پولیس کو حالات قابو میں لانے سے روکا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن اس وقت بھی نریندر مودی نے ان الزامات کو مسترد کیا اور ڈاکیومنٹری میں بی جے پی کے رہنما سوپن داس گپتا کا بھی کہنا تھا کہ گجرات کے حالات کو مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے زاویے سے دیکھا جائے تو اس میں حکومت کی ذمے داری نظر آتی ہے۔ لیکن یہ کہنا مبالغہ ہوگا کہ پولیس کو شعوری طور پر کسی منصوبہ بندی کے تحت حالات قابو کرنے سے روکا گیا۔
اسی طرح بی جے پی کے ایک اور رہنما اور سیاسیات کے استاد ڈاکٹر سوادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ گودھرا واقعے کے بعد آنے والا ردعمل روکنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے باجود نریندر مودی نے بطور وزیرِ اعلیٰ جو ہوسکتا تھا کیا اور تین دن بعد حالات قابو میں لانے کے قابل ہوئے۔
سیاسی حکمتِ عملی
نریندر مودی نے فسادات کے بعد بی جے پی کو وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہونے کی پیش کش بھی کی تھی جسے پارٹی نے مسترد کردیا تھا۔
سوپن داس گپتا کے نزدیک استعفے کی پیش کش سمجھ داری کے ساتھ کیا گیا فیصلہ تھا۔
آگے چل کر اس دستاویزی فلم میں گجرات فسادات کی تحقیقات سے جڑے دیگر اہم کرداروں کے بارے میں بھی تفصیلات اور انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔
دستاویزی فلم میں اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ کس طرح گجرات فسادات سے متعلق ہونے والی تنقید کے بعد نریندر مودی نے انتخابات میں اپنی مخالفت کو عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اس دستاویزی فلم کے آغاز میں ایک وضاحتی نوٹ بھی شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق 30 افراد نے اپنے تحفظ کو درپیش خدشات کی بنیاد پر اس سیریز کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا جب کہ بھارتی حکومت نے دستاویزی فلم میں سامنے آنے والے الزامات کا جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
دو قسطوں پر مشتمل اس دستاویزی فلم کا دوسرا حصہ منگل کو نشر کیا جائے گا۔