جب نوے دن میں ہونے والے انتخابات سات سال تک ملتوی ہو گئے

اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے کئی بار عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ان کے ایسے ہی اعلانات کی وجہ سے ان کے عہدے 'سی ایم ایل اے' (چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر) کو طنزاً 'کینسل مائی لاسٹ آرڈر' (میرا آخری حکم منسوخ ہے) کہا جانے لگا۔

"میں صاف صاف اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نہ سیاسی مقاصد ہیں اور نہ ہی افواج اپنے سپاہیانہ کردار سے رو گردانی کرنے کی خواہش مند ہیں۔ میں یہ اقدام بوجوہ مجبوری سیاست دانوں کے پیدا کیے جانے والے خلا کو پر کرنے کے لیے کر رہا ہوں۔ اس کام کا بیڑہ میں نے اسلام کے ایک سچے سپاہی کی حیثیت سے اٹھایا ہے۔ میرا واحد مقصد آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا ہے جو اسی سال اکتوبر میں ہوں گے۔"

پانچ جولائی 1977 کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے جب ان الفاظ میں انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی تو عام خیال تھا کہ جلد ہی سیاسی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ خطاب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند گھنٹے بعد کیا تھا۔

ضیاء الحق کا مارشل لا مارچ 1977 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے خلاف اپوزیشن کے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کا نتیجہ تھا۔

جنرل ضیاء الحق کے اس اعلان کے بعد الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن کی تیاری شروع کردی تھی۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ الیکشن کے لیے دیے گئے یہ نوے دن کتنے طویل ثابت ہوں گے۔

مداخلت۔۔۔

سات مارچ 1977 کو ہونے والے انتخابات ایسے ماحول میں ہوئے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو اور اپوزیشن جماعتوں میں کشیدگی اور بد اعتمادی کی فضا نکتۂ عروج پر پہنچ چکی تھی۔

’ماڈرن ہسٹری آف پاکستان‘ کے مصنف آئیون ٹالبوٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو 1971 میں پاکستان دو لخت ہونے کے بعد اقتدار میں آئے تھے جس کے بعد ایک ہنگامہ خیز دور کا آغاز ہوا۔ اس دوران 1973 کا آئین بھی منظور ہوا۔

تاہم ذوالفقار علی بھٹو پر اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں، بلوچستان میں فوجی آپریشن، حزبِ اختلاف کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم کرنے اور سیاسی مخالفین کو قتل کرانے جیسے الزامات بھی لگ رہے تھے۔

اس کے علاوہ بھٹو کی لینڈ ریفارمز، صنعتوں کو قومیانے اور لیبر قوانین میں تبدیلیوں کے باعث صنعت کاروں اور متوسط آمدن والے طبقات میں بھی ان کی مخالفت بڑھ رہی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 کے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی تاہم انتخابی عمل پر اپوزیشن کے احتجاج نے ایک سیاسی بحران کو جنم دیا۔

ٹالبوٹ لکھتے ہیں کہ ان حالات کے باجود بھٹو کا مخالف ووٹ بینک منقسم تھا۔ تاہم جب بھٹو نے 1977 میں قبل از وقت انتخاب کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن کی نو جماعتیں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) بنا کر ان کے خلاف انتخابی میدان میں اتر آئیں۔

اس اتحاد میں مسلم لیگ، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، تحریکِ استقلال، جماعتِ اسلامی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی، خاکسار تحریک اور کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ ٹالبوٹ کے مطابق آپس میں نظریاتی طور پر اختلاف رکھنے کے باوجود بھٹو دور میں محدود ہوتے سیاسی امکانات نے ان جماعتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تھا۔

بھٹو کے دیرینہ ساتھی رفیع رضا اپنی کتاب ’ذوالفقار علی بھٹو اینڈ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو دو تہائی اکثریت حاصل کر کے کئی اصلاحات لانا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے 1976 سے انتخابات کی تیاری شروع کر دی تھی۔ اسی تیاری کے بعد انہوں نے 1977 میں قبل از وقت الیکشن منعقد کرائے تھے۔

سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی کے الیکشن منعقد ہوئے تو اس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 200 عام نشستوں میں سے 155 نشستیں جیت لیں جب کہ اس کے مدِ مقابل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) صرف 36 نشستیں حاصل کر سکا۔

آج کے برخلاف اس دور میں انتخابات کے لیے آئین میں نگراں حکومت کا تصور موجود نہیں تھا اور الیکشن وزیرِ اعظم بھٹو کی حکومت کی نگرانی ہی میں منعقد ہوئے تھے۔

الیکشن سے قبل ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال پیدا ہو گئے تھے۔ 20 جنوری 1977 کو قومی اسمبلی کی 18 نشستوں پر ذوالفقار علی بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد 23 جنوری 1977 کو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اپنی اپنی نشستوں پر بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔

انتخابی مہم میں ویسے بھی سیاسی درجۂ حرارت عروج پر ہوتا ہے۔ تاہم ابتدا ہی میں ہونے والے تنازعات کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا جو انتخابی نتائج کے بعد تصادم میں تبدیل ہو گیا۔

اپوزیشن کے مسلسل احتجاج سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے 22 اپریل 1977 کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی، لاہور اور حیدرآباد میں محدود سطح پر مارشل لا نافذ کر دیا۔ پی این اے نے مارشل لا کے نفاذ کی مخالفت کی اور اسے پیپلز پارٹی کی حکومت بچانے کی کوشش قرار دیا۔

سابق کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی اپنی کتاب ’بھٹو، ضیاء اور میں‘ میں لکھتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک پر قابو پانے کے لیے بھٹو مسلسل فوجی قیادت سے رابطے میں تھے جس کے باعث فوج اس تنازع کی فریق بن گئی تھی۔

ایک مرحلے پر بھٹو نے جلسے جلسوں پر پابندی عائد کر دی لیکن اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا زور کم نہیں ہوا۔ اٹھائیس اپریل 1977 کو بھٹو نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک کو اپنی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش قرار دیا اور اس الزام کو وہ بعد ازاں اپنے دیگر بیانات میں بھی دہراتے رہے۔

پانچ جولائی کو مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء نے بارہا اپنے بیانات میں یہ یقین دلایا کہ الیکشن کرانے کے علاوہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔

اپوزیشن کے احتجاج اور اس کے خلاف حکومتی کارروائیوں کے باوجود دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات بھی جاری تھے جن میں تین جولائی کو ایک بار پھر ڈیڈلاک پیدا ہو گیا۔ بعض مصنفین کا خیال ہے کہ یہ ڈیڈلاک ایسا نہیں تھا کہ فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو پاتا۔ لیکن پی این اے اور پیپلز پارٹی کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع ہونے سے قبل ہی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے وزیرِ اعظم بھٹو کو معزول کر دیا۔

بھٹو کی کابینہ کے سابق وزیر رفیع رضا اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم پہلے ہی پاکستان میں فوج کا کردار اتنا بڑھا چکے تھے کہ جنرل ضیاء کے عزائم پر کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بھٹو شفاف الیکشن کرانے اور اپوزیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور اس طرح خود ہی ضیاء کو مداخلت کا موقع فراہم کیا۔

’منفرد مارشل لا‘

پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی فوج نے معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو، ان کے وزرا اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کو بھی حراست میں لے لیا۔ اس کارروائی کو 'آپریشن فیئر پلے' کا نام دیا گیا تھا۔

گیارہ جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے پہلی پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور انتخابات 90 دن کے اندر اندر منعقد کرا دیے جائیں گے۔

اس پریس کانفرنس میں انہوں نے معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ایک سخت جان فائٹر اور تاریخ کا گہرا شعور رکھنے والے عظیم سیاست دان ہیں۔

پروفیسر غفور احمد اپنی کتاب ’اور الیکشن نہ ہو سکے‘ میں لکھتے ہیں کہ "پیپلز پارٹی سے متعلق افراد مارشل لا لگنے کے فوری بعد خوف زدہ تھے۔ لیکن مارشل لا کے نرم رویے اور جنرل ضیاء الحق کی جانب سے مسٹر بھٹو کے حق میں تعریفی کلمات نے ان کی کیفیت کو جلد تبدیل کر دیا۔"

وہ لکھتے ہیں کہ "ان کی بڑی تعداد اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ عبوری حکومت کی سربراہی ایک ایسی ہستی کے پاس ہے جو مسٹر بھٹو کے مداح اور ممنونِ احسان ہیں۔ ان کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ 90 دن کی اس عارضی مدت کے ختم ہونے پر اقتدار بہر حال مسٹر بھٹو ہی کو منتقل کردیا جائے گا۔"

دل چسپ بات یہ ہے کہ جنرل ضیا نے خود بھی ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں اس تاثر کی نفی نہیں کی اور دوسری جانب پی این اے کے رہنما بھی پراعتماد تھے کہ مارشل لا کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دے دیں گے۔ لیکن آنے والے وقت نے دونوں ہی کے اندازے غلط ثابت کیے۔'

مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء جب مری میں نظر بند ذوالفقار علی بھٹو سے ملے تو ان سے کہا کہ میں تو بس عارضی نگران ہوں۔ سب کچھ تو آپ ہی کا ہے۔

'سب کچھ آپ کا ہی ہے!‘

جنرل ضیاء الحق 15 جولائی 1977 کو مری پہنچے جہاں انہوں نے زیرِ حراست سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا آغاز کیا۔ وہ سب سے پہلے پی این اے کے سربراہ مفتی محمود سے ملے۔

اس ملاقات میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان کے چیف آف اسٹاف اور بعد ازاں وائس چیف آف آرمی اسٹاف بننے والے جنرل کے ایم عارف اور راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی بھی موجود تھے۔

جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ وِد ضیاء‘ میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمود نے نواب زادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور کو بھی ملاقات میں شریک کرنے کے لیے کہا۔

وہ لکھتے ہیں کہ پی این اے کے رہنما حکومت گرنے پر بہت خوش تھے۔ ان کی گفتگو اور چہرے مہرے سے بھٹو کے خلاف نفرت عیاں تھی۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء سے شکایت کی کہ پی این اے کے رہنماؤں کی گرفتاری غیر منصفانہ ہے کیوں کہ اس طرح جارح اور متاثرہ فریق کو برابر کردیا گیا ہے۔

جنرل ضیاء نے یقین دہانی کرائی کے آئندہ الیکشن کی تیاری کے لیے جلد ہی پی این اے کی قیادت کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ ملاقات خوش گوار ماحول میں ہوئی اور جنرل ضیاء نے دوپہر کا کھانا بھی مفتی محمود کے ساتھ کھایا۔

SEE ALSO: پانچ جولائی 1977 کا مارشل لا: 'بھٹو اور ضیا ایک پیج پر نہیں تھے'

اس کے بعد جنرل ضیاء مری کے پنجاب ہاؤس میں نظر بند ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ جنرل ضیاء کی معزول وزیرِ اعظم سے پہلی ملاقات تھی جس میں ان دونوں کے علاوہ لیفٹننٹ جنرل فیض علی چشتی بھی موجود تھے۔

جنرل چشتی اپنی کتاب ’بھٹو ، ضیاء اور میں‘ میں لکھتے ہیں اس ملاقات میں صرف ہم تین افراد تھے۔ بھٹو اس وقت بظاہر طیش میں تھے۔ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش تھی۔ جنرل ضیاء نے انہیں بتایا کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ انہیں فوج کے اقتدار حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ غالباً اس مسئلے کا حل یہی تھا۔ تاہم اس سے کچھ آئینی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں اور چوں کہ وہ آئین کے خالق ہیں اس لیے انہیں معلوم ہے کہ ان پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔

فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ بھٹو نے جنرل ضیاء سے کہا کہ وہ اقتدار میں آ کر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے اور انہیں مشورہ دیا کہ "مولویوں اور ولی خان پر کبھی اعتماد نہ کرنا۔"

جنرل چشتی لکھتے ہیں: "اس پر جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ان کی حیثیت ایک عارضی نگراں کی ہے۔ اس کے بعد تو سب کچھ بھٹو صاحب ہی کا ہو گا اور پھر وہ جیسے چاہیں ملک چلائیں۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ انتخابات اعلان کے مطابق ہوں گے اور ان میں فوج غیر جانب دار رہے گی۔"

الیکشن کی تیاریاں ۔۔۔

ان ملاقاتوں کے فوری بعد ہی جنرل ضیاء الحق نے اہم تعیناتیاں شروع کر دیں جن سے یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا کہ انتخابات ان کے اعلان کردہ وقت کے مطابق ہی ہوں گے۔

انہوں نے 15 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا۔ ان کا نام جنرل ضیاء کے مقرر کردہ اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے تجویز کیا تھا۔

جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ذمے داریاں سنبھالتے ہی الیکشن ضوابط کی تشکیل کے لیے جسٹس نسیم حسن شاہ، اٹارنی جنرل اور ممتاز قانون دان اے کے بروہی پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔

SEE ALSO: ذوالفقار علی بھٹو: پس منظر سے پیش منظر تک

جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ 27 جولائی کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق اور چاروں صوبوں اور مرکز کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے ایک اجلاس میں پانچ جولائی کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا۔ ان کا اندازہ تھا کہ اب لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو رہا ہے، پی پی پی اور پی این اے کے درمیان کشیدگی کم ہو رہی ہے اور رہنماؤں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

حالات کا جائزہ لینے کے بعد 28 جولائی کو مری میں نظر بند سیاسی قائدین کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور رہائی سے قبل جنرل ضیاء نے ایک بار پھر بھٹو اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

یکم اگست سے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی ختم کر دی گئی اور اسی روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس مشتاق حسین نے 18 اکتوبر 1977 کو اعلان کردہ انتخابات کے شیڈول جاری کر دیا۔

سیاسی رہنماؤں کی رہائی اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ملک میں الیکشن کی فضا بن رہی تھی۔ لیکن اکتوبر کے آنے میں ابھی وقت تھا اور حالات کا رُخ تبدیل ہو رہا تھا۔

بدلتے رویے اور بڑھتے سوال

پروفیسر غفور احمد لکھتے ہیں: "28 جولائی کو رہائی پانے کے بعد اب اہمیت اس بات کو حاصل تھی کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما کس کردار اور طرزِ عمل کو اختیار کرتے ہیں۔ اس وقت سیاسی حلقوں میں خاص طور پر درج ذیل امور گفتگو کا محور تھے۔ پہلا یہ کہ مارشل کے نفاذ کے بعد پی این اے باقی رہ سکے گا یا یہ کہ اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی یا الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی۔ تیسرا یہ کہ سیاسی رہنما ماضی سے سبق سیکھ کر انتخابات کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے یا پھر اپنے طرزِ عمل سے انتخابات کے التوا کا ویسا ہی ایک جواز پھر فراہم کردیں گے جیسا وہ تیسرے مارشل لا کے نفاذ کے موقع پر کر چکے ہیں۔"

سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اپنی کتاب 'بھٹو: اے پولیٹیکل بائیوگرافی' میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی این اے اور فوج کا خیال تھا کہ ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ بھٹو نے مارچ 1977 کے انتخابات کو جس طرح مس ہینڈل کیا تھا اس کے باعث عوام میں ان کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے۔

سلمان تاثیر کے مطابق اس لیے عام تاثر یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق الیکشن کے لیے 90 دن کا اعلان کر کے دراصل اس دوران پیپلز پارٹی کی سیاسی تدفین کی تیاری کر رہے تھے۔

دوسری جانب فوج اور قومی اتحاد کی قیادت رہائی کے بعد بھٹو کے رویے میں آنے والی تبدیلی اور ان کے جارحانہ مزاج کی وجہ سے شکوک میں مبتلا ہو رہی تھی۔

پروفیسر غفور کے مطابق مری سے رہائی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے استقبال کرنے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے وہاں شدید ہلڑ بازی کی۔ پی این ے کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی بھی کراچی روانگی کے لیے جب ایئرپورٹ پہنچے تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ان کے خلاف توہین آمیز نعرے لگائے۔

وہ اپنی کتاب ’اور الیکش نہ ہو سکے‘ میں لکھتے ہیں: "پُرامن انتخابات کی راہ ہموار کرنا اور الیکشن کو ایک مہذب سیاسی مقابلے تک محدود رکھنا ملک کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مارشل لا کے غیر معمولی نرم رویے، مسٹر بھٹو کے ساتھ ان کا عزت و احترام کا سلوک اور ان کے حق میں تعریفی کلمات نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں دونوں کو شدید غلط فہمی میں مبتلا کر دیا۔"

پروفیسر غفور مزید لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان ناشائستہ اور غیر مہذب طرزِ عمل سے جمہوریت کی راہ میں کانٹے بونے کے ساتھ خود اپنے لیڈر کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ اپنے کارکنان کو قابو میں رکھنے کے بجائے خود مسٹر بھٹو کا رویہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔

SEE ALSO: پاکستان میں بننے والی کنگز پارٹی؛ 'حکومت کسی کی ہو اقتدار میں الیکٹیبلز ہی ہوتے ہیں'

ادھر فوج بھی بدلتی سیاسی صورتِ حال سے اپنے نتائج اخذ کر رہی تھی۔ جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ورکنگ وِد ضیا میں لکھتے ہیں کہ "مری میں حراست سے رہائی کے بعد بھٹو کا اعتماد بحال ہو رہا تھا اور ان کا رویہ جارحانہ ہو رہا تھا۔ پی این اے کی تحریک ماضی کا قصہ بن گئی تھی اور اس اتحاد کے کمزور رشتے خطرے میں تھے۔"

انہوں نے لکھا کہ بھٹو کو اپنی شعلہ بیانی کے لیے مارشل لا لگانے والے شخص (جنرل ضیاء الحق) کی صورت میں ایک نیا ہدف مل گیا تھا۔ مارشل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا کر وہ ضیاء کو دفاعی پوزیشن پر لے گئے تھے۔ انہوں نے ’حملہ ہی بہترین دفاع‘ (اوفینس از دی بیسٹ ڈیفنس) کی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی تھی۔

ہواؤں کا رُخ بدلنے لگا

نو اگست 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے سابق وزیر جے اے رحیم نے پریس کانفرس میں انکشاف کیا کہ مئی 1976 میں اُنہیں فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) نے اغوا کیا اور تشدد کا نشانہ بنا کر ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد 16 اگست کو انہوں نے پولیس میں ان واقعات کی شکایت بھی درج کرا دی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1972 میں فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف کے نام سے ایک پیرا ملٹری فورس بنائی تھی جس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ فورس بنیادی طور پر بھٹو کی حفاظت اور ان کے خلاف کسی ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لیے بنی ہے۔ بھٹو کے ناقدین یہ الزام عائد کرتے تھے کہ وزیرِ اعظم اس فورس کو خود پیپلز پارٹی کے اندر منحرف ہونے والے اور سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

23 اگست 1977 کو جنرل ریٹائر گل حسن بھی بھٹو کے خلاف منظرِ عام پر آگئے۔ وہ یونان میں پاکستان کے سابق سفیر تھے۔ 1972 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان کی فوج کا کمانڈر اِن چیف بنایا تھا لیکن چھ ماہ بعد ہی ان سے استعفی لے لیا تھا۔

جنرل (ر) گل حسن نے ایک افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر بھٹو نے اپنی آمریت مستحکم کرنے کے لیے صوبوں کے درمیان نفرت اور شکوک کے بیج بوئے۔ ان کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو بھکاری بنا دیا۔ ان کی خارجہ پالیسی بھی آزادانہ نہیں تھی۔ انہوں نے بھٹو پر دفاعی اشیا کی خریداری پر کمیشن لینے کا الزام بھی عائد کیا۔

پروفیسر غفور کے مطابق بھٹو کے سابق ساتھیوں کی جانب سے یہ انکشافات اور بیانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے تھے جب انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔

اس دوران 14 اگست کو جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں کہا کہ انتخابات سے متعلق آرا اور تجاویز جمع کرنے کے لیے انتخابی سیل نے کام شروع کر دیا ہے۔

انہوں ںے وقت پر انتخاب کرانے کا وعدہ ایک بار پھر دہرایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فوج جمہوریت کو ملکی بقا کے لیے ضروری سمجھتی ہے اور چوں کہ اس مشن کو باطل کرنے والا ہر شخص نہ صرف جمہوریت بلکہ پاکستان کا بھی دشمن ہے اس لیے ہم ایسے ہر شخص کو قرار واقعی سزا دیں گے۔

انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی بھٹو اور ان کے وزرا کے احتساب کے مطالبات بھی سامنے آنے لگے۔ تیس اگست 1977 کو مختلف ہائی کورٹس کے چار سابق ججز نے مشترکہ بیان میں بھٹو اور ان کے وزرا پر ’عوام کے خلاف جرائم‘ کے مقدمات چلانے کا مطالبہ کیا۔

بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن کی جانب سے کرپشن کے الزامات پر احتساب کے لیے کسی بھی عدالت میں پیش ہونے کا موقف دہرانا شروع کر دیا۔ دوسری جانب پی این اے نے بھی اتنخابی گوشواروں کی کڑی جانچ اور سابق حکومت کے احتساب پر اصرار بڑھا دیا۔

SEE ALSO: پاکستان میں سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

ایک پرانی ایف آئی آر

اس سے قبل چار اگست 1977 کو لاہور پولیس ایف ایس ایف کے تین افسران کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کر چکی تھی۔ یہ مقدمہ نواب محمد احمد خان کے بیٹے احمد رضا قصوری کی مدعیت میں 30 جولائی 1977 کو درج کیا گیا تھا۔ قتل کا یہ واقعہ نومبر 1974 میں پیش آیا تھا۔

اس مقدمے کی سیشن عدالت میں سماعت کے دوران نواب محمد احمد خان کی بیوہ نے بیان دیا کہ ان کے بیٹے احمد رضا قصوری اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر میں وزیرِ اعظم بھٹو کو نامزد کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن بعد ازاں رپورٹ میں ان کا نام شامل کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کے اصل قاتل مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔

اس مقدمے میں 19 اگست کو لاہور سے ایف ایس ایف کے تین مزید افسران کو گرفتار کیا گیا جنھوں نے ایک مقامی عدالت میں اعترافِ جرم کرتے ہوئے بیان دیا کہ انہیں ذوالفقار بھٹو نے احمد رضا قصوری کے قتل کا ٹاسک دیا تھا لیکن کارروائی کے دوران ان کے والد کی جان چلی گئی۔

پروفیسر غفور لکھتے ہیں کہ اس مقدمے میں یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی تھی جب ملک انتخابی دور سے گزر رہا تھا اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے جا رہے تھے۔ ان کے مطابق مقدمے کی کارروائی سے یہ امکان پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ اس میں بھٹو کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

'بھٹو صاحب کو توقع نہیں تھی۔۔۔'

جنرل کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ 26 اگست کو بھٹو نے اسلام آباد میں ایک ایسی تقریر کی جس سے ضیاء الحق کو اندازہ ہو گیا کہ اب بھٹو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔

بھٹو نے اس روز اپنی تقریر میں کہا کہ اگر میرے ساتھ زبردستی کی گئی یا ہتھکڑیاں لگائی گئیں تو میں کچھ بنیادی نوعیت کے سوال اٹھاؤں گا۔ کے ایم عارف کے مطابق یہ بیان بین السطور جنرل ضیاء الحق کے لیے دھمکی تھی۔

اس تقریر کے دو روز بعد ہی ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر جنرل ضیاء الحق سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بارے میں جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ بھٹو نے جنرل ضیاء کو کہا کہ اگر الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی کے کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں تو اس سے انتخابی ماحول متاثر ہو گا۔

اس ملاقات میں بھٹو نے جنرل گل حسن کے الزامات پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ وہ ان کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ اخبارات میں ان کے خلاف بے سر و پا باتیں شائع کی جارہی ہیں اور جنرل ضیاء سے کہا کہ وہ پریس کو ان کی کردار کشی سے روکیں۔

جنرل فیض علی چشتی کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے جواب دیا کہ پریس آزاد ہے، وہ جو چاہے شائع کرے۔ وہ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ اگر بھٹو صاحب کو کسی بات پر اعتراض ہے تو وہ پریس میں اپنا مؤقف شائع کریں یا عدالت سے رجوع کریں۔

SEE ALSO: کیا پاکستان میں نظریۂ ضرورت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا؟

وہ لکھتے ہیں کہ اس ملاقات میں جنرل ضیاء کی سرد مہری نمایاں تھی اور ظاہر ہے کہ بھٹو صاحب کو ایسے سلوک کی توقع نہیں تھی۔

ادھر جنرل ضیاء کا قائم کردہ سیل الیکشن سے متعلق سیاست دانوں سے آرا اور تجاویز جمع کر رہا تھا۔ اس سیل کے ذریعے جو صورتِ حال جنرل ضیاء کے سامنے آ رہی تھی، اس سے انتخابات کے بارے میں ان کا لہجہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا۔

انتخاب سے پہلے احتساب۔۔۔

جنرل ضیاء الحق نے جو انتخابی سیل قائم کیا تھا اس کے سربراہ راولپنڈی کے کور کمانڈر اور ان کے قریبی مشیر لیفٹننٹ جنرل فیض علی چشتی تھے۔

جنرل فیض علی چشتی کی کتاب ’بھٹو، ضیاء اور میں‘ کے مطابق انتخابی سیل نے 13 اگست سے اپنا کام شروع کیا۔ اس الیکشن سیل میں میجر جنرل سید میاں، میجر جنرل راؤ فرمان علی خان اور میجر جنرل احسان الحق ملک شامل تھے۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں کہ الیکشن سیل کی تشکیل کے وقت جنرل ضیاء الحق نے واضح کیا تھا کہ مسلح افواج کا واضح عزم ہے کہ پُر امن ماحول میں انتخابات کرا کے حکومت عوام کے نمائندوں کے سپرد کر دی جائے اور فوج واپس بیرکس میں چلی جائے۔

اس سیل کا مقصد سیاسی قیادت سے بات چیت کر کے انتخابات سے متعلق ان کی آرا اور تجاویز چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تک پہنچانا تھا۔ اس دوران گاہے گاہے جنرل ضیاء بھی سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔

جنرل فیض علی چشتی 24 اگست تک انتخابی سیل کے سربراہ رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں سیل کی روزانہ کی کارروائی کی تفصیلات درج کی ہیں۔

اسی طرح جنرل کے ایم عارف نے ’ورکنگ ود ضیا‘ میں جولائی سے اگست 1977 تک پی این اے میں شامل اور اپوزشین کی دیگر جماعتوں، قانونی ماہرین اور سابق جج صاحبان سے جنرل ضیاء کی ملاقاتوں میں سامنے آنے والے اہم نکات درج کیے ہیں۔

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے کم و بیش تمام ہی رہنما بالواسطہ یا براہِ راست یا تو الیکشن میں تاخیر کے حامی تھے یا پہلے احتساب اور بعد میں انتخاب جیسی تجاویز دے رہے تھے۔

ان رابطوں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر انتخابات کے بارے میں جنرل ضیاء الحق کا لہجہ بدلنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ اب اسلام کے نفاذ، انتخابی گوشواروں کی شفافیت اور ملک کے لیے صدارتی نظام زیادہ موزوں ہونے جیسے موضوعات پر بھی اظہارِ خیال کر رہے تھے۔

یکم ستمبر 1977 کو انہوں نے پریس کانفرنس میں یقین دہانی کرائی کہ مارشل لا آئندہ سال تک نہیں جائے گا۔ تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ "یہ قرآن میں ہے نہ مجھے الہام ہوا ہے کہ انتخابات 18 اکتوبر کو ہی ہوں اور اس کے بعد کچھ نہیں ہو گا۔"

اس پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ جن پارٹیوں کا منشور پاکستان کے نظریے کے خلاف ہوگا انہیں انتخاب میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ڈاکیومینٹری | پاکستان: آزادی سے مارشل لا تک

بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا

دو ستمبر 1977 کو لیفٹننٹ جنرل فیض علی چشتی کو جنرل ضیاء کی کال موصول ہوئی۔ جنرل ضیاء نے انہیں کہا کہ وہ خاموشی سے کراچی کے ایک دورے پر جانے والے تھے لیکن اب ان کی جگہ جنرل چشتی کو وہاں جا کر کور کمانڈر جنرل ارباب کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ بھٹو کو گرفتار کرلیا جائے۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں کہ یہ پیغام فون پر بھی دیا جاسکتا تھا۔ لیکن جنرل ضیاء کا کہنا تھا کہ یہ پیغام انہیں زبانی دینا ہوگا۔ یہ پیغام ملتے ہی اگلے دن ایف آئی اے نے ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی سے گرفتار کر کے لاہور منتقل کر دیا۔ اگلے روز ریڈیو پاکستان سے خبر نشر ہوئی کہ بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

بھٹو کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے فوری ردِعمل میں کہا کہ اس اقدام سے سیاسی بحران مزید سنگین ہوجائے گا۔ تاہم چار ستمبر کو بیگم نصرت بھٹو نے اعلان کیا کہ بھٹو کی گرفتاری کے باوجود پیپلز پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی۔

’فوج کے خلاف مہم‘

جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ 10 ستمبر 1977 کو خفیہ اداروں نے رپورٹ دی جس میں دیگر باتوں کے ساتھ یہ بات بھی شامل تھی کہ پیپلز پارٹی جنرل ضیاء کے خلاف ایک مہم شروع کرنا چاہتی ہے جس میں ان کے خلاف یہ الزامات پھیلائے جائیں گے کہ وہ امریکی خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے ایجنٹ ہیں اور یہ کہ انہوں نے کرپشن کی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی صوبوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا چاہتی ہے اور اقتدار میں آ کر بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے فوج کی تعداد میں کمی کرنا چاہتی ہے۔

ایسی انٹیلی جینس رپورٹس اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی آرا کی بنیاد پر جنرل ضیاء اپنی رائے بنا رہے تھے۔ لیکن اس وقت تک وہ انتخابات سے متعلق مختلف اجلاسوں اور مشاورتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہے تھے۔

تیرہ ستمبر 1977 کو جی ایچ کیو کے لیکچر ہال راولپنڈی میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے ضوابط کی تشکیل کے لیے بلائی گئی ایک کانفرنس میں جنرل ضیاء شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں دیگر سیاسی رہنماؤں کے علاوہ بیگم نصرت بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی شرکت کی۔ اسی دوران جنرل ضیاء کو ان کے پرائیوٹ سیکریٹری بریگیڈیئر ظفر نے یہ پیغام پہنچایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ضمانت پر رہا کردیا ہے۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر زون ون لیفٹننٹ جنرل اقبال کو حکم دے رکھا تھا کہ اگر ہائی کورٹ سے بھٹو کو ضمانت ملے تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا تھا۔

جنرل ضیاء ںے اس معاملے پر باز پرس کی تو لیفٹننٹ جنرل اقبال کے سی او ایس کے ذریعے انہیں یہ جواب موصول ہوا کہ عوام کے ممکنہ ردِعمل کے خوف سے بھٹو کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس پر جنرل ضیاء آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے فون کر کے جنرل اقبال کی سرزنش کی اور کہا کہ وہ حکم عدولی پر انہیں برطرف کر دیں گے۔

جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی بات سن کر وہ خود اس سوچ میں پڑ گئے کہ ضیاء صاحب کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ کیا وہ انتخاب ملتوی یا منسوخ کر دیں گے اور بھٹو کو دوبارہ گرفتار کرلیں گے؟

اس پر وہاں موجود جنرل احسان نے ان سے کہا کہ نہ ہی ضیاء جنرل اقبال کو برطرف کریں گے اور نہ ہی الیکشن کرائیں گے۔ جنرل احسان کی یہ دونوں ہی پیش گوئیاں بعد میں درست ثابت ہوئیں۔

SEE ALSO: جب پاکستان کی عدالت میں ملکہ الزبتھ کو سربراہِ مملکت ثابت کیا گیا

فوجی عدالت میں مقدمہ

معروف قانون دان حامد خان اپنی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ ادھر ضمانت پر رہائی کے بعد بھٹو صاحب نے لغاری ہاؤس لاہور میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں فوجی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ تقریر کی۔ جنرل ضیاء اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی ان کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔

حامد خان کے مطابق حسبِ توقع ان کی شعلہ بیانی پر عوام نے انھیں خوب داد دی۔ لیکن دوسری جانب پہلے سے خوف زدہ فوجی حکومت مزید ڈر گئی اور اس نے انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس تقریر کے بعد 17 ستمبر 1977 کو مارشل لا کے حکم نامے کے تحت بھٹو کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس حکم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے بھٹو کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی ہدایت دی۔ جنرل ضیاء کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی خفیہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ بھٹو اور ان کے ساتھی قتل جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

جنرل چشتی لکھتے ہیں: "جنرل ضیاء کو یہ خفیہ دستاویزات کس نے دی تھیں؟ یقیناً فوج نے نہیں۔ یہ مسلیں (دستاویزات) سول انتظامیہ کے پاس تھیں۔ لہذا افسر شاہی ہی تھی جنھیں معلوم تھا کہ ان مسلوں میں کیا ہے؟ اور انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چند حضرات یقیناً جانتے تھے کہ حاکمِ اعلیٰ کی قربت کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔"

تاہم جنرل ضیاء کے چیف آف اسٹاف جنرل کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ یہ جنرل ضیاء کی سیاسی اور قانونی مجبوری تھی کہ بھٹو کے خلاف عدالتی کارروائی کی شفافیت پر کوئی سوال نہ اٹھے۔ اس لیے بھٹو کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے گئے اور عام عدالتی کارروائی ہی کی گئی۔

لیکن بھٹو کی گرفتاری مارشل لا حکم نامے کے تحت کی گئی تھی جس کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے خلاف بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے الزام میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا۔

چیف جسٹس کی تبدیلی

جنرل کے ایم عارف 'ورکنگ وِد ضیاء' میں لکھتے ہیں کہ مارشل لا کے نفاذ کے ایک ہفتے بعد ہی ضیاء الحق نے سابق چیف جسٹس حمود الرحمن سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں جسٹس حمود الرحمن نے انہیں کہا تھا کہ عاصمہ جیلانی کیس میں وہ خود مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں اور اس فیصلے کی روشنی میں ہنگامی حالات میں بھی مارشل کا آئینی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں عوام اور عدالت دونوں ہی سے مارشل لا کی توثیق کرانا ہوگی۔

جسٹس حمود الرحمن کا کہنا تھا کہ سیاسی حالات دیکھ کر انہیں محسوس ہوتا ہے کہ مارشل لا طول پکڑے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے جنرل ضیاء کو مشورہ دیا تھا کہ انتخابات سے قبل وہ عدالت سے مارشل لا کی توثیق کرالیں کیوں کہ اگر آئندہ الیکشن میں بھٹو اور ان کے ساتھی کامیاب ہو گئے تو پھر خدا ہی جنرل ضیاء کو ان سے بچا سکتا ہے۔

SEE ALSO: سیاسی تنازعات اور عدلیہ کا کردار: ’سپریم کورٹ تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے‘

کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مخالفین یہ الزام عائد کرتے رہے تھے کہ عدلیہ میں بھٹو صاحب کے حامی جج موجود ہیں۔ اگست 1977 کو ہونے والی ایک ملاقات میں جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے بھی جنرل ضیاء کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ چیف جسٹس یعقوب علی خان بھٹو کے نامزد کردہ ہیں۔

سپریم کورٹ نے 20 ستمبر کو نصرت بھٹو کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی اور بھٹو کو دیگر ملزمان سمیت راولپنڈی منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ابتدائی حکم کے بعد عدالت نے درخواست پر سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

حامد خان لکھتے ہیں کہ فوجی حکومت کو اندازہ ہو چکا تھا کہ چیف جسٹس یعقوب علی خان ان کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیں گے۔ اس لیے انہیں کیس سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

ایک مارشل لا حکم نامے کے تحت ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر تبدیل کر دی گئی جس کی بعد یعقوب علی خان اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور ان کی جگہ جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔

حامد خان لکھتے ہیں کہ جسٹس یعقوب کی ریٹائرمنٹ اور ان کی جگہ جسٹس انوار الحق کی تقرری کو جس طرح سپریم کورٹ نے بغیر کسی مزاحمت کے تسلیم کرلیا، اس سے واضح ہو گیا تھا کہ عدالت سے اب مارشل لا کے تحت دیگر اقدامات کی تائید بھی حاصل ہو جائے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔

قابض کون؟

پچیس ستمبر 1977 کو چیف جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی فل بینچ نے بیگم نصرت بھٹو کی درخواست پر دوبارہ سماعت کا آغاز کیا۔

کیس کی سماعت کے دوران بیگم نصرت بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے عاصمہ جیلانی کیس کی بنیاد پر دلائل دیے جس میں جنرل یحییٰ کو قابض قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ 1973 کے آئین کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کو مارشل لا نافذ کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔

فوجی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے مؤقف اختیار کیا کہ پانچ جولائی کو چیف آف آرمی اسٹاف کے اقدام کو اقتدار پر قبضہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ان کی دلیل یہ تھی کہ بھٹو نے سات مارچ 1977 کے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا تھا۔ لیکن ان نتائج کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اس لیے اقتدار پر فوج نے قبضہ نہیں کیا بلکہ دراصل بھٹو اقتدار پر قابض تھے۔

اس سے قبل مارشل لا حکومت انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کئی وائٹ پیپرز جاری کر چکی تھی جن میں سابق چیف الیکشن کمشنر اور عالمی تنظیموں کے بیانات کا حوالہ دے کر ذوالفقار علی بھٹو پر انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

اس کیس میں مارشل لا حکومت کے وکیل اے کے بروہی نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ موجوہ حالات پر عاصمہ جیلانی کیس کا اطلاق اس لیے بھی نہیں ہوتا کہ اس وقت مارشل لا مستقل بنیادوں پر عائد کیا گیا تھا جب کہ موجودہ حالات میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے صرف شفاف انتخابات کے انعقاد تک حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے مارشل لا نافذ کیا ہے۔

SEE ALSO: عاصمہ جیلانی کیس: ایک عدالتی فیصلہ جس کی گونج 50 سال بعد بھی سنائی دیتی ہے

ان دلائل کی بنیاد پر بھٹو نے تفصیلی بیان عدالت میں جمع کرایا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے عالمی طاقتوں کی ایما پر ان کے خلاف سازش کی ہے اور وہ احتساب کی آڑ میں الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس تفصیلی بیان میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔

ایک طرف تو سپریم کورٹ میں مارشل کی آئینی حیثیت زیرِ بحث تھی اور مارشل لا حکومت عدالت کو الیکشن کے انعقاد کی یقین دہانیاں کرا رہی تھی۔ دوسری طرف انتخابات کے التوا کا فیصلہ ہونے والا تھا۔

'آپ تیاریاں کرتے رہیں لیکن۔۔۔'

اکتوبر قریب تھا۔ لیکن الیکشن کے انعقاد سے متعلق غیر یقینی کی فضا موجود تھی۔ جنرل ضیاء ابھی بھی الیکشن کے انعقاد سے متعلق سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔

جنرل کے ایم عارف کے مطابق 30 ستمبر کو پیر پگارا اور چوہدری ظہور الہیٰ جنرل ضیاء سے ملے اور ان سے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی۔

اس سے قبل 25 ستمبر کو کوئٹہ میں پاکستان قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کا اجلاس ہوا جس کے بارے میں پروفیسر غفور احمد لکھتے ہیں کہ اجلاس کے شرکا نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان جگہ جگہ اتحاد کے جلسوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق کونسل کے اجلاس میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے طویل دورِ حکومت میں ہزارہا افراد کو سرکاری اداروں میں بھرتی کیا ہے جس کی بنا پر ہر جگہ انتظامیہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

اس بنیاد پر پی این اے کے رہنماؤں اصغر خان، شاہ احمد نورانی، میاں طفیل محمد، بیگم نسیم ولی خان اور چوہدری ظہور الہیٰ کا خیال تھا کہ مارشل لا انتظامیہ سے مطالبہ کیا جائے کہ انتخاب سے قبل احتساب کا عمل مکمل کیا جائے اور اس وقت تک الیکشن ملتوی کر دیا جائے جب کہ مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اللہ کا کہنا تھا کہ مارشل حکام سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے لیے ملک میں قیامِ امن کی ذمے داری ادا کریں۔

پروفیسر غفور لکھتے ہیں کہ طویل گفتگو کے باوجود اس بارے میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکا لہذا بحث و تمحیص کے نتیجے میں دونوں آرا کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ہوا کہ قومی اتحاد الیکشن سے قبل محاسبے کا عمل مکمل کرنے کا مطالبہ کرے اور مارشل لا حکام کی جانب سے الیکشن ملتوی ہونے کی صورت میں خاموش رہا جائے۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن حسن محمود اپنی کتاب 'جنرل الیکشنز اِن پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ پی این اے کے اس اجلاس سے قبل ہی مقتدر حلقے انتخابات کے التوا کا فیصلہ کر چکے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ اکتوبر سے پہلے جب کمیشن میں انتخابات کی تیاریاں زورں پر تھیں تو ایک اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس مشتاق نے ایک ایسی بات کہی کہ سب حیران رہ گئے۔

جسٹس مشتاق نے کہا کہ "آپ صاحبان اپنی انتظامی تیاریاں جاری رکھیں لیکن الیکشن اکتوبر میں نہیں ہوں گے کیوں کہ ابھی لاہور ہائی کورٹ میں بھٹو پر قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہو گا۔ اس کے بعد وہ سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے جس میں بہت وقت لگ جائے گا۔"

حسن محمود لکھتے ہیں کہ یہ بات اس لیے حیران کن تھی کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس تھے اور بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں ضمانت کی اپیل کی سماعت بھی وہی کر رہے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ نہ جانے یہ مولوی مشتاق کی زبان پھسل گئی تھی یا انہوں نے جان بوجھ کر یہ انکشاف کیا۔ لیکن اس سے اندازہ ہوا کہ اکتوبر سے بہت پہلے ہی کچھ فیصلے ہو گئے تھے۔

SEE ALSO: پاکستان میں فوج کے سربراہان: کون، کب اور کتنا اہم رہا؟

اور الیکشن ملتوی ہو گیا

جنرل ضیاء الحق انتخابات سے متعلق اپنا ذہن بنا چکے تھے۔ تاہم انہوں نے کسی حتمی اعلان سے قبل یہ معاملہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز اور کور کمانڈرز کے سامنے رکھا۔

جنرل فیض علی چشتی کے مطابق 28 ستمبر کو ہونے والے اس اجلاس میں الیکشن کے التوا پر غور کیا گیا۔ تین جرنیلوں نے الیکشن ملتوی کرنے کی تائید کی جب کہ چھ کی رائے مخالفت میں تھی۔ طویل بحث کے بعد جنرل ضیاء نے انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور تمام جنرلز سے کہا "میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ میرا حکم بجا لائیں۔"

بالآخر یکم اکتوبر کو جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں اعلان کر دیا کہ 18 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات ملتوی کیے جا رہے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر فوری پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

جنرل ضیاء کا کہنا تھا سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور پیش نہیں کیے۔ پروگرام اور پالیسیوں کی جگہ شخصیت پرستی نے لے لی ہے۔ کردار کُشی ہو رہی ہے۔ ملک میں مطالبہ ہے کہ انتخاب سے پہلے احتساب ہونا چاہیے۔ ان حالات میں انتخاب کا انعقاد نئے بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ملک کو خطرات سے بچانے اور عوام کے سامنے احتساب کے بعد صحیح تصویر پیش کرنے کی خاطر اگلے اعلان تک الیکشن ملتوی کیے جاتے ہیں۔

انتخابات کی اگلی تاریخ کے اعلان تک انہوں نے عبوری حکومت کے کام جاری رکھنے کا اعلان بھی کر دیا۔

بھٹو نے انتخاب کے التوا کو بلاجواز قرار دیا۔ الیکشن ملتوی ہونے پر پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ مسٹر بھٹو اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات الیکشن کے التو کا جواز نہیں بن سکتے۔ پیر پگارا، اصغرخان اور چوہدری ظہور الہی سمیت پی این اے کے کئی رہنماؤں نے انتخاب ملتوی ہونے کا خیر مقدم کیا۔

گو کہ قومی اتحاد پہلے ہی التوا کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن اس میں شامل جماعتِ اسلامی کے رہنما اور اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور نے اپنے ایک انٹرویو میں الیکشن کے التوا کی مخالفت کی اور اسے مایوس کُن قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے التوا کے اعلان سے کچھ ہی روز قبل پاکستان کے سیکریٹری خارجہ آغا شاہی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ پاکستان میں الیکشن 18 اکتوبر 1977 ہی کو ہوں گے۔ اس کے باوجود الیکشن ملتوی کرنے سے پاکستان کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

پی این اے کے اپنے سیکریٹری جنرل کی جانب سے اتحاد کی طے کردہ پالیسی کے خلاف اس بیان پر اپوزیشن اتحاد کے اندر ہی اختلاف ہو گیا اور آئندہ کچھ ہی عرصے میں اس کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا۔

ادھر نو اکتوبر کو جسٹس مشتاق حسین کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی۔ گیارہ اکتوبر کو ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے چار حکام پر نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ اسی مقدمے میں 1979 میں بھٹو کو سزائے موت دے دی گئی۔

یہ اس اعتبار سے بھی قتل کا منفرد مقدمہ تھا کہ اس کی کارروائی سیشن عدالت کے بجائے ہائی کورٹ میں چلائی گئی۔ جس کی وجہ سے ملزمان ہائی کورٹ میں اپیل کے حق سے بھی محروم ہو گئے۔

مارشل لا کی عدالتی توثیق

دس نومبر 1977 کو سپریم کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کی درخواست پر اپنا متفقہ فیصلہ جاری کر دیا جس میں مارشل لا کو آئینی جواز فراہم کیا گیا۔ چیف جسٹس انوار الحق نے فیصلے میں لکھا کہ مارشل لا ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے آئین کو منسوخ نہیں بلکہ معطل کیا اور ساتھ ہی جلد از جلد انتخاب کے لیے ماحول بنانے کی یقین کی دہانی کرائی ہے۔ اس لیے عدالت کے نزدیک مارشل لا کا نفاذ قابلِ توثیق اقدام ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزار نصرت بھٹو کے وکیل یحیی بختیار نے کہا کہ 18 اکتوبر 1977 کو اعلان کردہ الیکشن کے التوا نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عزائم پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ تاہم مارشل ایڈمنسٹریٹر کے وکیل اے کے بروہی نے اپنے مؤکل سے بات کر کے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ احتساب کا عمل ہوتے ہی انتخابات کرا دیے جائیں گے اور اس کا انحصار سول عدالتوں میں جاری کیسز پر کارروائی کی رفتار پر ہے۔

SEE ALSO: جب سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد بحال کی مگر حکومت پھر بھی نہ چلی

فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ اے کے بروہی نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ اس عمل میں کم از کم چھ ماہ لگ سکتے ہیں اور اس کے دو ماہ بعد انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل یحییٰ بختیار نے تجویز کیا تھا کہ الیکشن کے انعقاد کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل متعین کر دیا جائے تاہم عدالت نے اسے مناسب نہیں سمجھا۔

حامد خان کہتے ہیں کہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا جس کا انہوں نے بعد میں غلط استعمال کیا۔

جنرل کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء کے ناقدین کے نزدیک انہوں نے پیپلز پارٹی کے دوربارہ برسرِ اقتدار آنے کے خوف سے الیکشن ملتوی کیا تھا اور بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ مارشل لا کے لیے بھٹو کے مخالفین کی تائید برقرار رکھنے کے لیے تھا۔

ان کے مطابق جنرل ضیاء ابتدا میں غیر یقینی کا شکار حکمران تھے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے اقتدار کا مزہ چکھا وہ یکسوئی کے ساتھ خود کو حکمران سمجھنے لگے۔ ستمبر 1977 میں انہوں ںے تہران میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئین کیا ہے؟ گیارہ، بارہ صفحات کا ایک کتابچہ جسے وہ جب چاہیں پھاڑ دیں اور اگلے دن کسی اور مختلف نظام کا علان کر دیں۔ کون ہے جو انہیں اس سے روک سکتا ہے؟

اس کے بعد کئی مواقع پر جنرل ضیاء الحق نے عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ان کے ایسے ہی اعلانات کی وجہ سے ان کے عہدے 'سی ایم ایل اے' (چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر) کو طنزاً 'کینسل مائی لاسٹ آرڈر' (میرا آخری حکم منسوخ ہے) کہا جانے لگا۔

جنرل ضیاء نے مارشل کا ایک برس مکمل ہونے پر کابینہ بنائی اور 1978 میں ملک کے صدر بن گئے۔ چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی جسے آج بھی ایک عدالتی قتل تصور کیا جاتا ہے۔

جنرل ضیاء نے ملک میں عام انتخابات کا وعدہ 1985 میں پورا کیا۔ لیکن یہ انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرائے گئے۔ اس طرح 1977 میں انتخاب کا وعدہ بظاہر سات سال بعد پورا تو ہوا، لیکن ملک میں جمہوریت پھر بھی بحال نہ ہو سکی۔