امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے چینی ہم منصب سے ہونے والی پہلی آن لائن ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ساتھ تائیوان کے معاملے پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اس آن لائن ملاقات میں صدر بائیڈن نے چینی ہم منصب پر واضح کر دیا کہ آبنائے تائیوان کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنا ہو گا۔
ایک امریکی عہدے دار کے مطابق صدر بائیڈن نے حالیہ دنوں میں تائیوان سے متعلق چین کے طرزِ عمل پر دو ٹوک انداز میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
رواں برس اکتوبر میں چین کے لگ بھگ 150 لڑاکا طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود میں پروازیں کی تھیں جس پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق چین کے میڈیا نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ اس ملاقات میں صدر شی جی پنگ نے تائیوان سے متعلق روایتی جارحانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے 'شنہوا' کے مطابق صدر شی نے کہا کہ تائیوان میں علیحدگی پسند اور امریکہ میں ان کے حامی آگ سے کھیل رہے ہیں۔
'شنہوا' کے مطابق صدر شی نے کہا کہ تائیوان میں علیحدگی پسند ’ریڈ لائن‘ کراس کرنے ک کوشش نہ کریں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل چین امریکہ کو تائیوان کی ’ریڈ لائن‘ عبور کرنے سے خبردار کر چکا ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن شی ورچوئل ملاقات: 'حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کی کوشش تھی'چین کے لیے تائیوان کا معاملہ ریڈ لائن کیوں ہے اور کیا مستقبل میں یہ معاملہ کسی بڑے تنازع کی صورت اختیار کر سکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لیے اس کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
’ریپبلک آف چائنا‘
تائیوان کا سرکاری نام ’ریپبلک آف چائنا‘ یعنی جمہوریہ چین ہے۔ 1949 سے تائیوان چین سے الگ آزاد حیثیت میں ہے لیکن چین اسے اپنا علیحدہ ہونے والا حصہ قرار دیتا ہے اور دوبارہ اپنی ریاست کے ماتحت لانا اس کی قومی پالیسی کے اہداف میں شامل ہے۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی حکمران ہے جب کہ تائیوان میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے۔ ان دونوں کی اس علیحدہ علیحدہ سمت کے تاریخی اسباب ہیں۔
انسائیکلو آف برٹینیکا کے مطابق 239 قبل مسیح میں چین اور تائیوان کا پہلا رابطہ قائم ہوا اور ساتویں صدی عیسوی میں وہاں چینی ماہی گیروں نے آباد ہونا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ یہ چین اور جاپان کے قزاقوں کا بھی ٹھکانا رہا۔ اس کے بعض حصوں میں جاپانی بھی آباد رہے۔
سن 1626 میں تائیوان ڈچ نوآبادیات کا حصہ بن گیا اور 1642 تک ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا حکومتی انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
سترھویں صدی سے چین میں چنگ خاندان کی حکومت کا آغاز ہوا اور 1683 میں انہوں نے تائیوان کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ 1894 میں چین سے ہونے والی جنگ میں جاپان نے تائیوان پر قبضہ کر لیا اور شمونوسکی معاہدے کے تحت تائیوان اور پینگ ہو جزیرے کو ہمیشہ کے لیے جاپان کا حصہ قرار دے دیا۔
دس دن قائم رہنے والا جمہوریہ
اس وقت دنیا کی عالمی قوتوں نے اس معاہدے کو تسلیم کر لیا لیکن چین کا مؤقف تھا کہ یہ معاہدہ اس پر تھوپا گیا۔ اس معاہدے کے بعد تائیوان میں مقامی رہنماؤں نے ایک جمہوریہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ ایشیا کی پہلی جمہوری ریاست تھی جو صرف دس دن تک قائم رہی اور جاپان نے کڑے اقدامات کر کے تائیوان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔
تائیوان پر حکمرانی کے دوران جاپان نے وہاں ترقیاتی کام کرائے جس کی وجہ سے تائیوان کی معیشت بھی مستحکم ہوئی۔
تائیوان کے مقامی نمائندوں نے 1935 میں جاپان سے مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کیا جس کے بعد جاپان نے تائیوان میں ایک نیم خود مختار حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔
چین میں واپسی
دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے تائیوان سے فلپائن پر حملے کیے۔ اس جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی تو تائیوان چین کے زیرِ انتظام دے دیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد چین میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ تحریک کی چین میں چیانگ کائی شیک کے نیشنل چائنا پارٹی (گومندانگ) کے ساتھ خانہ جنگ میں تیزی آ چکی تھی۔
سن 1949 میں کائی شیک اور ان کی قیادت میں لڑنے والوں کو ماؤ زے تنگ سے شکست ہو گئی۔ کائی شیک فرار ہو کر تائیوان آ گئے اور یہاں اپنی حکومت قائم کر لی اور اسے ’ریپبلک آف چائنا‘ قرار دیا۔
کائی شیک سمجھتے تھے کہ چین کی ساری سر زمین، منگولیا اور جنوبی بحیرۂ چین کا پورا علاقہ اس ری پبلک کا حصہ ہے۔ اس لیے تائیوان میں حکومت کے قیام کے بعد کائی شیگ کی فوجوں نے چین پر حملوں اور کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس وجہ سے ماؤزے تنگ نے آبنائے تائیوان پر منڈلانے والے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے تائیوان کے خلاف جنگ کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔
کوریا کی جنگ
ماؤزے تنگ تائیوان کو چین میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہونے والے تھے کہ جون 1950 میں کمیونسٹ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔
SEE ALSO: بائیڈن اور شی کی ورچوئل ملاقات سے قبل امریکہ اور چین کا تائیوان کے معاملے پر انتباہشمالی کوریا کو اس جنگ میں سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی اور چین نے بھی شمالی کوریا کی مدد کے لیے اپنی فوج میدان میں اتار دی۔
امریکہ کے خارجہ امور کی تاریخ مرتب کرنے والے دفتر خارجہ کے ’آفس آف ہسٹورین‘ کے مطابق سرد جنگ میں مشرقی ایشیا سے متعلق امریکہ کی پالیسی آبنائے تائیوان میں کشیدگی بڑھانے کا باعث بنی۔
امریکی حکام تائیوان میں کائی شیک چیانگ کے لیے کارروائی کرنے والی چین کی فوج کو آبنائے تائیوان سے گزرنے دینے کے لیے تیار تھے لیکن کوریا میں چھڑنے والی جنگ کو جنوب میں پھیلنے سے روکنے کے لیے امریکہ نے اپنا ساتواں بیڑا آبنائے تائیوان میں اتار دیا تھا۔
اس اقدام پر کمیونسٹ چین برہم ہو گیا۔ امریکی بیڑے کی وجہ سے اس وقت آبنائے تائیوان میں ہونے والا ممکنہ تصادم ٹل گیا۔ کوریا کی جنگ کے بعد امریکہ اور تائیوان کے تعلقات مضبوط ہوتے گئے۔
تائیوان سے تعلقات
آفس آف ہسٹورین کے مطابق 1954 میں امریکہ نے خطے میں کمیونسٹ اثرات کو روکنے کے لیے ’ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن‘ (سیٹو) اتحاد بنایا اور تائیوان کے ساتھ مشترکہ دفاعی اتحاد بنانے پر بھی کھلی بحث کا آغاز کر دیا۔
چین نے خطے میں ہونے والی اس پیش رفت کو اپنے لیے خطرہ تصور کیا اور ستمبر 1954 میں آبنائے تائیوان کے جزیروں پر بمباری بھی کی۔
بعدازاں 1960 کی دہائی میں امریکہ نے ویت نام جنگ سے نکلنے کے لیے چین سے روابط بڑھانے کا آغاز کیا۔ اقوامِ متحدہ میں چین کی نشست تائیوان پر قائم جمہوریہ چین کے پاس تھی جو 1971 میں عوامی جمہوریہ چین کو دے دی گئی۔
امریکہ نے 1979 میں چین سے باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ امریکہ کی کانگریس میں اسی برس تائیوان ریلشن ایکٹ منظور کیا گیا۔
یہ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کا تائیوان کے بجائے صرف چین سے سرکاری روابط رکھنے کا انحصار اسی توقع پر ہے کہ تائیوان کے مستقبل کا تعین پرامن طریقے سے کیا جائے گا۔
ایکٹ کے تحت امریکہ، تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔ البتہ امریکہ اس معاملے پر چین کی 'ون چائنا' پالیسی کو تسلیم کرتا ہے جس کے تحت چین کا یہ مؤقف ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے۔
ساتھ ہی 1982 میں صدر ریگن نے تائیوان سے متعلق ’چھ یقین دہانیاں‘ کروائیں۔ ان کے مطابق امریکہ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت سے قبل چین سے مشاورت کرنے کا پابند نہیں۔
تائیوان کی خود مختاری سے متعلق بھی امریکہ نے کوئی مؤقف ظاہر نہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ امریکہ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ امریکہ تائیوان پر کبھی چین سے مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔
چین کیا چاہتا ہے؟
چین تائیوان کو علیحدگی اختیار کرنے والا صوبہ قرار دیتا ہے اور اسے دوبارہ چین میں شامل کرنا اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
رواں برس اکتوبر میں بھی آبنائے تائیوان میں کشیدگی میں اضافے کے بعد صدر شی جنگ پنگ نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا۔ لیکن ماہرین کے نزدیک تائیوان سے متعلق چین کی یہ پالیسی محض کسی علاقے کو اپنی حدود میں دوبارہ شامل کرنے تک محدود نہیں۔
چین میں 1839 سے 1949 تک کے دور کو ’تحقیر کی صدی‘ (سینچری آف ہیومیلیشن) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں چین پر چنگ خاندان کی حکومت اور جمہوریہ چین کو مغربی قوتوں کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے چین میں قومی تحقیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
صدر شی اور ان کے پیش رو بھی اس صدی کے دوران چین کے تسلط سے نکلنے والے اہم علاقوں کو 2049 میں عوامی جمہوریہ چین کی 100 ویں سالگرہ تک واپس اپنے دائرۂ اختیار میں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
ان علاقوں میں ہانگ کانگ، بھارت کے ساتھ کچھ متنازع علاقے، ہانگ کانگ کے ساتھ تائیوان اور مشرقی و جنوبی بحیرہ چین کا 80 فی صد علاقہ شامل ہے۔
اس لیے چین بارہا تائیوان کو رسمی طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے باز رہنے سے خبردار کر چکا ہے۔
تائیوان کیا چاہتا ہے؟
چین کی کمیونسٹ پارٹی جن علاقوں کو دوبارہ چین کی حدود میں شامل کرنا چاہتی ہے ان میں سے ہانگ کانگ ’ایک ملک دو نظام‘ کے تحت چین کے دائرۂ اختیار میں آ چکا ہے۔
چین نے اس کے لیے ’اعلیٰ سطح کی خود مختاری‘ تسلیم کی ہے۔
صدر شی نے 2019 میں تائیوان کے ساتھ بھی اسی فارمولے کے تحت سمجھوتے کی پیش کش کی تھی لیکن تائیوان میں اس تجویز کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فورن ریلشنز کے مطابق اگرچہ تائیوان 1949 سے 1987 تک مارشل لا کے تحت رہا اور وہاں 1992 میں پہلے انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد 1996 میں پہلے صدارتی انتخاب ہوئے جس کے بعد سے وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کا اقتدار منتقل ہو رہا ہے۔
تائیوان پر کتاب ’ان چارٹرڈ اسٹریٹ‘ کے مصنف رچرڈ بش کا کہنا ہے کہ تائیوان کے لوگوں کی جمہوریت سے وابستگی کی وجہ سے وہاں چین کی ’ایک ملک دو نظام ‘ کی پالیسی کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں چین کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے تائیوان میں چین پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تائیوان ریڈ لائن کیوں؟
کونسل آن فارن افیئرز کے مطابق تائیوان کے عوام کی اکثریت موجودہ صورت حال یعنی ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حیثیت میں تائیوان کا اپنا نظامِ حکومت ہے اور اس کے پاس اپنی فوج بھی ہے۔
امریکہ سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک اس کے ساتھ غیر رسمی تعلقات رکھتے ہیں۔ اسے اقوامِ متحدہ میں رکنیت حاصل نہیں لیکن دنیا کی کئی عالمی تنظمیوں میں نمائندگی مل چکی ہے۔
اس کے باوجود چین تائیوان کو اپنے دائرۂ اختیار میں لانے کے لیے دباؤ بڑھا رہا جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ امریکہ کے ساتھ خطے میں بڑھتی ہوئی سرد جنگ ہے۔
ماہرین کے مطابق دوسری عالمی جنگ اور کوریا کی جنگ میں تائیوان کی اسٹرٹیجک اہمیت واضح ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی امور کے جریدے ’دی ڈپلومیٹ‘ کے مطابق اگر چین تائیوان کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو مشرق کی جانب اس کے میزائل کی مار 150 نوٹیکل میل بڑھ جائے گی۔
اس صورت میں چین مشرقی بحیرۂ چین میں امریکہ کے اتحادی جاپان اور امریکہ کے جزیرے گوام کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔
جریدے ’دی اٹلانٹک‘ کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مشرقی بحیرۂ چین میں اپنی عسکری قوت بڑھائی ہے اور اس وقت اس علاقے میں طاقت کا توازن چین کے حق میں ہے۔
اسی طرح جنوبی بحیرۂ چین میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت سے تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ویت نام نے ہتھیاروں کی خریداری میں گزشتہ دو برسوں کے دوران بالترتیب 20 اور 16 فی صد اضافہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح مشرقی و جنوبی بحیرہٴ چین میں امریکہ کے اتحادی جاپان اور فلپائن بھی اپنی فوجی قوت بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرہ چین میں امریکہ، جاپان، بھارت، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے چینی دعوؤں کے برخلاف سمندری حدود میں آزادانہ نقل و حرکت کے لیے جنگی مشقیں بھی کی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تائیوان ایشیا کے قلب میں چین کی حریف ایسی جمہوریت ہے جس کے واشنگٹن سے مضبوط روابط ہیں۔ چین کی زیادہ تر تجارت مشرقی و جنوبی بحیرہ چین سے ہوتی ہے جہاں تائیوان کے علاوہ جاپان اور فلپائن امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادی ہیں۔
کونسل آن فارن افیئر کے مطابق اس وجہ سے امریکہ تائیوان کی آزادی یا چین سے علیحدگی کا حامی نہ ہونے کے باوجود اسے چین کی جانب سے کسی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
چِپ اور نظریہ
کونسل آن فارن افیئرز کے مطابق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین آلات میں استعمال ہونے والی سیمی کنڈکٹر چپ کی پیداوار کے اعتبار سے تائیوان پہلے نمبر پر ہے۔
یہ چپ اسمارٹ فونز، کمپیوٹر، گاڑیوں اور ایسے دفاعی آلات میں بھی استعمال ہوتی ہے جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر منحصر ہیں۔ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی ایسی چپس کا 60 فی صد تائیوان میں تیار کی جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ جدید آلات میں استعمال ہونے والی چپس کے لیے تائیوان پر انحصار کرتا ہے اس لیے چین کے کسی بھی ممکنہ حملے سے دفاع میں اس کی مدد کرے گا۔
بعض ماہرین کے نزدیک امریکہ نے سرد جنگ کے دوران خطے میں تین دہائی قبل سوویت یونین اور کمیونزم کو شکست دی تھی۔ اس لیے وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے عزائم کے خلاف چین کے مقابلے میں تائیوان میں ایک مستحکم ہونے والی جمہوریت کی مدد کر رہا ہے۔
کیا چین تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے؟
امریکہ کے محکمۂ دفاع نے گزشتہ برس ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تائیوان کو چین میں شامل کرنے کے لیے چین کی پیپلز لبریشن آرمی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
رواں برس مارچ میں انڈو پیسیفک میں امریکہ کے عسکری کمانڈرز نے خبردار کیا تھا کہ چین آئندہ دہائی میں تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: چین اندازوں سے کئی گنا زیادہ تیزی سے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے: پینٹاگانماہرین کے نزدیک تائیوان پر چین کی کسی فوری کارروائی کے امکانات کم ہیں کیوں کہ چین ایسا کرتا ہے تو اسے نہ صرف اس اقدام کی مالی بلکہ سفارتی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔
چین کے حملے کی صورت میں تائیوان کو عالمی سطح پر ہمدردی حاصل ہو گی۔ دوسری جانب چین خود کو ایک ذمے دار قوت کے طور پر سامنے لا رہا ہے، ایسے کسی اقدام سے اس کی ان کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔
متعدد مرتبہ رائے شماری کے نتائج سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تائیوان میں آزادی کا اعلان کرنے کی رائے کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
عسکری قوت کے اعتبار سے چین کو تائیوان پر واضح برتری حاصل ہے جب کہ امریکہ نے چین کی جارحیت کی صورت میں تائیوان کو کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی ہے اس لیے تائیوان کی جانب سے کوئی براہِ راست اقدام خارج از امکان ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مبصرین کا خیال ہے کہ تائیوان میں صورت حال جوں کی توں رہے گی اور یہ مستقبل قریب میں بھی نہ صرف چین بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں ’ریڈ لائن‘ بنا رہے گا۔