تائیوان کی ایک یونیورسٹی کے طالب علم فینگ ہاؤ اور اس کے والدین اپنے جزیرے سے صرف 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چین کی جانب سے حملے کے بارے میں پریشان ہیں۔ چینی فوجی طیاروں کی ایک بڑی تعداد نے اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں تائیوان کے فضائی دفاعی زون پر پروازیں کی ہیں۔
ہاؤ کے والدین پریشان ہیں کہ اگر چینی افواج تائیوان کی سرزمین پر قدم رکھتی ہیں تو اس عمر میں وہ کیا کریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ کسی محفوظ جگہ، ممکنہ طور پر کسی یورپی ملک میں پناہ کے لیے درخواست دیں گے۔
فینگ ہاؤ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ تائیوان کو محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن میں اسے محفوظ محسوس نہیں کرتا، کیونکہ پیپلز لبریشن آرمی تائیوان میں داخل ہونے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔
چین، تائیوان کو اپنے ملک کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا۔ حالیہ پروازیں تائیوان سے لگ بھگ 100 کلومیٹر مغرب میں سمندر کے اوپر اس کے فضائی دفاعی زون کے ایک کونے میں ہوتی ہیں جو جنوبی بحیرہ چین کے ساحل کے بھی قریب ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی رہنما ژی جن پنگ کی قیادت میں پیپلز لبریشن آرمی کی ایئر فورس نے شاید اس مہینے اس علاقے میں پرواز کرنے والے طیاروں کی تعداد بڑھا دی ہے تاکہ اپنے ملک کے اندر اسے مضبوط قوت کے طور پر دیکھا جائے، اور تائیوان اور اس کے مغربی اتحادیوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ بیجنگ کی فوجی طاقت کو کمتر نہ سمجھیں۔
تائیوان کی چانگ جنگ کرسچن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر شین لی کہتے ہیں کہ ابھی، وہ صرف حملے سے پہلے کی مشق کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی حملہ بھی ہو گا، لیکن شی جن پنگ کو گھریلو مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے شاید کچھ کرنا پڑے گا، جیسے کہ بلیک آؤٹ وغیرہ، کیونکہ حالیہ عرصے میں چین میں بجلی کی قلت کے باعث مسائل بڑھ رہے ہیں۔
چین نے 2020 کے وسط سے تائیوان کی فضائی حدود کے اسی کونے پر پرواز کرنے والے اپنے جنگی لڑاکا اور بمبار طیاروں کی تعداد بڑھا دی ہے، کیونکہ تائیوان چین کے حریف امریکہ کے قریب ہو رہا ہے۔ اس سے قبل اس علاقے میں پرواز کرنے والے طیاروں کی روزانہ تعداد 10 سے کم ہوتی تھی۔
4 اکتوبر کو تائیوان کی وزارت دفاع نے بتایا کہ چین کے طیاروں نے 52 پروازیں کیں جن میں 34 جے -10 ملٹی رول سٹرائیک فائٹرز بھی شامل تھے۔ چین کی فوج نے اپنی ویب سائٹ پر 30 ستمبر کو کہا تھا کہ وہ اپنی قومی سلامتی اور ہخودمختاری کے لیے اپنی فضائی قوت میں اضافہ کر رہی ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن اور شی جن پنگ کا تائیوان معاہدے کی تعمیل پر اتفاقتائیوان کی وزارت کی جانب سے ایک سوشل میڈیا بیان میں کہا گیا تھا کہ تائیوان کی فضائیہ نے جوابی اقدام کرتے ہوئے اپنے طیارے بھیجے اور اپنے میزائل سسٹم کو متحرک کیا۔
اس ماہ پروازوں کی تعداد میں اضافہ چین کے قومی دن کے موقع پر ہوا ہے۔ اس موقعہ کو چین کے حکمران اپنی کامیابیوں کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی میں سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات کے مضمون کے اسسٹنٹ پروفیسر چن یی فین کہتے ہیں کہ طیاروں کی تعداد میں اضافہ محض اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی فوج طویل عرصے سے یکم اکتوبر کی تعطیل کو اپنی فضائی قوت کے اظہار کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
تائیوان کے حکام طیاروں کی پروازوں کو ایک سیاسی عمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ چینی کمیونسٹ حکام کے ہتھکنڈوں نے نہ صرف تائیوان اور چین کے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ علاقائی امن اور استحکام کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی حکام تائیوان کے لیے واشنگٹن کی فوجی مدد کے بارے میں مزید پریشان ہیں۔ گلوبل فائرپاور ڈاٹ کام کے مطابق امریکہ کے پاس دنیا کی طاقتور ترین مسلح افواج ہیں جب چین اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن، یو ایس ایس کارل ونسن اور برطانوی بحری جہاز ایچ ایم ایس کوئین الزبتھ حالیہ دنوں میں مشترکہ مشقوں کے سلسلے میں تائیوان کے مشرق میں سمندر میں موجود تھے۔ ایشیائی سمندروں میں امریکی فوجی نقل و حرکت نے چین کو اپنی جانب سے ردعمل پر ابھارا ہے۔
نارتھ کیرولائنا کے ڈیوڈسن کالج میں تائیوان امور کے ایک ماہر شیلی ریگر نے کہا ہے کہ میڈیا رپورٹس کے باوجود کہ طیارے تائیوان کی سر زمین پر یا اس کے قریب پرواز کر رہے ہیں ، چین کے یہ اقدامات کسی جنگ کی جانب اشارہ نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اہم خطرہ چینی طیاروں اور تائیوان کے کسی بھی طیارے کے درمیان کسی امکانی تصادم کا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل معاملہ اس نفساتی دباؤ کا ہے جو ایک عام تائیوانی باشندہ محسوس کرتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ لوگ جنگ سے ڈرتے ہیں لیکن اس خطے کے موجودہ حالات کے سامنے وہ بے بس ہیں۔