امریکی ڈالر کو دنیا بھر میں ایک مضبوط عالمی کرنسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور عشروں سے زیادہ تر بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی لین دین کے لیے امریکی ڈالر کا اسستعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں کئی معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید آنے والے برسوں میں امریکی ڈالر کے پاس وہ مقام نہ رہے جس پر وہ ابھی تک براجمان ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یوکرین پر روس کے حملے، امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ، امریکی قرض کی حد پر واشنگٹن میں ہونے والی لڑائی نے دنیا کی سب سے بڑی کرنسی کے مستقبل پر سوال اٹھا دیے ہیں۔
امریکی ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی کا درجہ 1944 میں اس وقت ملا جب بریٹن ووڈز کانفرنس میں 44 ملکوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قائم کرنےکا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں کرنسیوں کے تبادلے کے لیے ڈالر کو پیمانہ مقرر کیا گیا۔
امریکی ڈالر کو یہ حیثیت اس لیے دی گئی کیونکہ امریکہ کے پاس دنیا بھر میں سونے کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں، جن کی موجودہ مقدار 8133 ٹن ہے۔یاد رہے کہ کرنسی نوٹ کے پیچھے سونے کی طاقت ہوتی ہے اور کرنسی جاری کرنے والا ملک اس کے بدلے میں سونا یا متبادل قیمت دینے کی ضمانت دیتا ہے۔
اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو ڈالر سے پہلے پچھلے چھ سو سال میں پرتگال، سپین، ہالینڈ ، فرانس اور برطانیہ کی کرنسیاں دنیا کی سب سے بڑی کرنسی کے طور پر اس مقام پر فائز رہ چکی ہیں جس پر اس وقت امریکی ڈالر ہے۔
جنگیں صرف نقشے ہی تبدیل نہیں کرتیں بلکہ اور بھی بہت سی حقیقتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح روس یوکرین کی جنگ نے بھی دنیا کی بہت سی حقیقتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ جس کی ایک مثال جنگ کی وجہ سے روس پر لگنے والی اقتصادی پابندیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے اس ملک کے ساتھ امریکی ڈالر میں لین دین کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
پابندیوں کے بعد چین روس کے ساتھ زیادہ تر تجارت اپنی کرنسی یوآن میں کر رہا ہے۔ اسی طرح مغربی ملکوں کی جانب سے روس پر عائد معاشی پابندیوں کے نتیجے میں روس کی بڑی کمپنیوں نے ڈالر کی بجائے دیگر غیر ملکی کرنسیوں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے جس میں چینی کرنسی یوآن کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
عالمی مالیاتی نظام میں روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ امریکہ کے کئی اتحادی ڈالر کے عالمی مالیاتی نظام سے دور ہو جائیں گے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کے بعد سے سعودی عرب، چین، بھارت اور ترکی جیسے ممالک دوسری کرنسیوں میں کاروبار کرنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت نے انڈونیشیا کے ساتھ بھارتی روپے میں تجارتی لین دین کا معاہدہ کیا ہے۔
امریکی ڈالر کے بعد اس وقت یورپی یونین کے یورو، جاپانی ین، برطانوی پاؤنڈ ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے ڈالر کو مضبوط کرنسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ اب چین بین الاقوامی مالیاتی لین دین میں اپنی کرنسی یوآن کا حصہ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2022 کی چوتھی سہ ماہی میں سرکاری غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کا حصہ 20 سال کی کم ترین سطح یعنی 58 فیصد پر آ گیا، جو کہ 1995 کے بعد مرکزی بینکوں کے غیر ملکی ذخائر میں ڈالر کے حصے کی کم ترین سطح ہے۔
دنیا بھر میں تیل اور اجناس کی خریدوفروخت کے لیے سب سے زیادہ ڈالر کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن پابندیوں کے نتیجے میں ایران اور وینزویلا کے بعد اب روس کی مارکیٹ تک رسائى کے لیے بھی امریکی ڈالر استعمال نہیں کیا جا رہا۔عالمی تجارت میں لین دین کا چہرہ بدل رہا ہے۔بھارت اب اماراتی درہم اور روبل میں روس سے تیل خرید رہا ہے۔چین نے روس سے 88 ارب ڈالر کی مالیت کا تیل ، کوئلہ اور دھاتیں چینی یوآن میں خریدی ہیں۔
15 سال پہلے چینی یوآن کا کرنسی کی عالمی منڈی میں لین دین نہ ہونے کے برابر تھا جو اب سات فیصد تک آ گیا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود ابھی ڈالر کہیں نہیں جا رہا، کیونکہ ابھی بھی 66 کھرب ڈالر کے عالمی تجارتی حجم میں 90 فی صد عالمی تجارت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے۔اور دنیا کے 60 فی صد ممالک ریزرو کرنسی کے طور پر آج بھی ڈالر ہی پر انحصار کر تے ہیں۔
دنیا بھر کی کرنسیوں میں امریکی ڈالر کی قیادت کی ایک اہم وجہ ماہرین کے نزدیک یہ بھی کہ جب تک امریکہ سپر پاور ہے، ڈالر دنیا کا سب سے بڑا ذریعہ ہی رہے گا۔