|
لاہور -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے عدالت انہیں ممکنہ طور پر فوج کے حوالے کیے جانے سے تحفظ فراہم کرے۔ عمران خان کی جانب سے یہ درخواست ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب حال ہی میں نو مئی سمیت کچھ مقدمات میں اُنہیں عدالت سے ریلیف بھی ملا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے نو مئی کے 12 مقدمات میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا جب کہ عمران خان کی ویڈیو لنک پر حاضری کا نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
عمران خان کو ممکنہ طور پر فوج کی حراست میں دیے جانے کے خلاف درخواست عزیز کرامت بھنڈاری کے توسط سے دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نو مئی سے متعلق مقدمات میں عمران خان کو فوج کی حراست میں دیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو فریق بنایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف نو مئی کے سلسلے میں لاہور کے تھانہ شادمان، ریس کورس اور دیگر پولیس تھانوں میں 12 مختلف مقدمات درج ہیں۔ لاہور پولیس نے چند روز قبل اڈیالہ جیل میں عمران خان سے تفتیش بھی کی تھی۔
خیال رہے کہ عمران خان نے یہ درخواست رواں ہفتے پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کے بعد دائر کی ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو اچانک یہ ڈر اور خوف کیوں پیدا ہوا کہ اُنہیں فوج اپنی حراست میں لے سکتی ہے؟ اس کے لیے وائس آف امریکہ نے قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جا سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔ جہاں عدالتِ عظمٰی کے پانچ جج صاحبان نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جا سکتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس حوالے سے آئینی اور قانونی پوزیشن واضح نہیں ہے کیوں کہ جو پانچ جج صاحبان کا فیصلہ ہے اُسے ایپلٹ بینچ کے سات ججوں نے معطل کر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس معاملے پر تاحال حتمی طور پر کوئی عدالتی فیصلہ نہیں آیا۔
'فریقین کے پاس آپشنز محدود ہیں'
تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جوں جوں معاملہ آگے بڑھ رہا ہے فریقین کے پاس آپشنز محدود ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بہنیں ہر روز اپنے بھائی کی زندگی کے بارے میں بات کرتی ہیں کہ اُن کے بھائی کی زندگی کو خطرہ ہے۔
انتخابی عمل اور جمہوری اقدار پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ عمران خان سے قبل بھی نو مئی کے مقدمات میں بہت سے لوگوں کو فوجی تحویل میں لیا گیا ہے.
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے چند روز قبل خود اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کو جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی کال دی تھی۔ لہذٰا اس کے بعد اُنہیں فوج کی تحویل میں دیے جانے کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔
'جس فریق سے اصل تنازع ہے وہاں سے ریلیف نہیں مل رہا'
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو عدالتیں ریلیف تو دے رہی ہیں۔ لیکن اُن کی جس 'فریق' سے لڑائی ہے وہاں سے تو کوئی ریلیف تاحال نہیں ملا۔
سہیل وڑائچ کی رائے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس عمران خان کے خلاف تھی جس میں فوج نے یہ پھر یہ واضح کیا ہے کہ تحریکِ انصاف کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سول عدالتیں تو عمران خان کو ریلیف دے رہی ہیں۔ لیکن فوجی عدالتوں سے ریلیف کی توقع ذرا کم ہی ہوتی ہے۔
حامد خان سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے بعد سے مسلسل یہ کوشش ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف سول عدالتوں، دہشت گردی عدالتوں اور خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہو چکے ہیں جہاں یہ نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کے مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے۔
فوجی تحویل میں عمران خان کو کیا مشکلات ہو سکتی ہیں؟
واضح رہے کہ حکومت نے تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کے علاوہ عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان فوجی تحویل میں جاتے ہیں تو اس سے فوج اور تحریکِ انصاف کارکنوں کے درمیان خلیج مزید بڑھ سکتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان فوجی تحویل میں چلے جائیں۔ لیکن سول عدالتیں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیں۔
حامد خان کے مطابق سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مختلف وقتوں کے مختلف تجربات ہیں۔ اِس سے قبل ماضی کے فوجی ڈکٹیٹروں ایوب خان اور یحیٰی خان کے ادوار میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب بات چیت کا دروازہ بند ہو تو پھر تصادم کا راستہ ہی بچتا ہے جو کسی کے بھی حق میں نہیں ہوتا۔