پاکستان میں ججز کی تقرری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش کی ہے۔ تاہم اُنہیں بعض وکلا تنظیموں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کی تقرری چار کے مقابلے میں پانچ ووٹوں سے ہوئی، تاہم طریقۂ کار کے مطابق اب یہ معاملہ ججز کی تقرری کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی اور پھر وزیرِ اعظم کے پاس جائے گا۔
لیکن قانونی ماہرین جوڈیشل کمیشن سے منظوری ملنے کے بعد اُن کے سپریم کورٹ کا جج بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں سمجھتے۔
جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کے ساتھ یہ بھی امکان ہے کہ وہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد 2030 میں ملک کی چیف جسٹس بھی بن سکتی ہیں۔
ان کی نامزدگی پر جہاں بہت سے حلقے اس پیش رفت پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تو وہیں بعض اسے سنیارٹی کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی ٹوئٹ میں اسے خواتین کو بااختیار بنانے کے عمل میں ایک سنگِ میل قرار دیا ہے۔
'یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا موقع ہے'
سن 1994 میں جب ملک میں پہلی بار ہائی کورٹس میں چھ خواتین ججز کو تعینات کیا گیا تو ان میں سے ایک لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کی جانے والی جسٹس ناصرہ اقبال بھی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ناصرہ اقبال کا کہنا ہے کہ یقیناً یہ دن پاکستان کے لیے انتہائی اہم اور بڑا دن ہے لیکن اس میں بہت وقت لگ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پہلے کئی سارک ممالک جن میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں وہاں خاتون ججز ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں تک پہنچ چکی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سنگ میل عبور کرنے میں 74 سال کا عرصہ لگ گیا۔ جب کہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک خاتون کے پہنچنے میں بھی 28 سال لگ گئے۔
'سپریم کورٹ میں خاتون کو جج مقرر کرنے کی سفارش عدالتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے'
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ قانون ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مردوں کی حکمرانی رہی ہے اور وہ اس شعبے میں خواتین کو اعلیٰ عہدوں تک نہیں آنے دیتے۔
لیکن یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ سوچ حاوی رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کے خاتمے کے عالمی کنونشن کا دستخطی ہے اور اس کے تحت تمام شعبوں میں کم سے کم 30 فی صد خواتین کی نمائندگی ضروری ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ میں 17 ججز میں سے کم سے کم پانچ تو خواتین ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ معیار اور اہلیت کی حامل ججز ہمارے نظامِ قانون میں موجود ہیں جنہیں موقع دینا ضروری ہے۔جس سے عدالتوں میں صنفی تنوع کو بھی فروغ ملے گا۔
لیکن جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کے خلاف وکلا کیوں سراپا احتجاج ہیں؟
جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی جج مقرر کرنے پر غور کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کا یہ دوسرا اجلاس تھا۔
اس سے قبل ستمبر میں جوڈیشل کمیشن ان کی تعیناتی کو مسترد بھی کر چکی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کی مخالفت بار کونسلز اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی کھل کر مخالفت کرتی آئی ہیں۔
پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو سنیارٹی کے اصولوں کے تحت ہی مقرر کیا جانا چاہیے۔
کونسل کا گلہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عائشہ ملک سے تین جج سینئر تھے، لیکن انہیں نظر انداز کر کے جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں جج بنایا جا رہا ہے۔
بار کونسل کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق اگر ججز کو تعینات کرنے میں سنیارٹی کے اصول کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا رہا ہے تو پھر اس کا متبادل معیار مقرر کیا جائے۔
وکلا کا مزید کہنا ہے کہ اگر میرٹ اور قابلیت ہی اس بارے میں واحد معیار ہے تو پھر سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ کے تمام ججز ہی کی اہلیت کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔
وکلا کا مؤقف ہے کہ اس طرح 15 سال سے زیادہ پریکٹس کرنے والے وکلا کو بھی آئین کے تحت سپریم کورٹ میں جج مقرر کرنے پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔
وکلا کی نمائندہ تنظیموں کے مطابق ججز کی تعیناتیوں سے متعلق شفاف اور واضح معیار مقرر کرنے تک سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنا خطرناک ہو گا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی خیر مقدم
ادھر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی جسٹس عائشہ ملک کی بطورِ جج تعیناتی کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا ہے۔ کمیشن کے مطابق ملکی عدلیہ کی تاریخ میں عدالتِ عظمیٰ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی، عدلیہ میں صنفی تنوع کو فروغ دینے کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے۔
خاص طور ایسی عدلیہ میں جہاں اطلاعات کے مطابق، مجموعی طور پر خواتین ججوں کی تعداد صرف 17 فی صد ہے اور اعلیٰ عدلیہ میں ان کی شمولیت 4.4 فی صد سے کم ہے۔
'جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کا تعلق خواتین کو بااختیار بنانے سے نہیں'
لیکن سپریم کورٹ کی ماہر وکیل ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی تقرری سے خواتین کو بااختیار بنانے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک خالصتاً قانونی معاملہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس تعیناتی کی مخالفت کرنے والے افراد یا گروپس کو عورت مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اگر یہ بات خواتین کو بااختیار بنانے ہی کی ہے تو سارے ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں محض پانچ یا چھ خواتین ججز ہی کام کر رہی ہیں۔ تو ان کی تعداد کیوں نہیں بڑھائی جاتی؟
انہوں نے کہا کہ درحقیقت ججز کی تقرری کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ روائیتی طور پر ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول ہی اپنایا جاتا رہا ہے اور اس کو اسی لیے شفاف سمجھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2004 میں بھی لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس فخر النسا کھوکھر کا نام بطور خاتون جج زیر غور آیا تھا، لیکن ان کی جگہ مرد جج کو اعلٰی عدالت میں جج مقرر کر دیا گیا تھا۔