|
نئی دہلی — قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں 'شنگھائی تعاون تنظیم' (ایس سی او) کا دو روزہ اجلاس جمعرات کو ختم ہو گیا ہے۔ اس اجلاس کی ایک اہم بات یہ رہی کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اس سے قبل پانچ اجلاسوں میں مودی بذات خود شریک ہوئے تھے۔
اس بار بھارت کی جانب سے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے شرکت کی جنہوں نے اجلاس کے آخری روز اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او کو کنیکٹیوٹی منصوبوں کے تناظر میں خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام اور غیر امتیازی تجارتی حقوق جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی سالمیت کا باہمی احترام، داخلی امور میں عدم مداخلت اور طاقت کا عدم استعمال اس بلاک کی بنیاد ہونی چاہیے۔
مبصرین کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم ایس سی او اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ان مواقع پر الگ سے دیگر سربراہانِ مملکت سے ان کی ملاقات ہوتی تھی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ نریندر مودی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کے مطابق بھارت سے ایک سیکیورٹی ٹیم نے ان کے دورے کے سلسلے میں آستانہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
سفارتی و صحافتی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے اس اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی؟ کیا اس فورم میں بھارت کی دلچسپی کم ہو رہی ہے؟ یا وہ چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کی وجہ سے اس کے روبرو نہیں ہونا چاہتے یا پھر ان پر امریکہ کی جانب سے کوئی دباؤ ہے؟
بھارتی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی عدم شرکت کی وجہ اسی موقع پر بھارت میں پارلیمانی اجلاس کا منعقد ہونا ہے۔
SEE ALSO: شنگھائی تعاون تنظیم، عالمی استحکام کی ایک اہم قوت ہے: پوٹنلیکن بعض تجزیہ کار اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ آستانہ نئی دہلی سے بہت زیادہ دور نہیں ہے اور پارلیمانی اجلاس کو کوئی بحران بھی درپیش نہیں تھا۔ مزید یہ کہ وزیرِ اعظم مودی آٹھ سے 10 جولائی تک روس اور آسٹریلیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو پھر وہ آستانہ کیوں نہیں جا سکتے تھے؟
بعض ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ ایس سی او کے تعلق سے بھارت کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔ 2023 میں بھارت کو ایس سی او کی میزبانی کرنی تھی۔ اس نے اجلاس کے انعقاد کی مکمل تیاری کر لی تھی لیکن آخری لمحوں میں اس اجلاس کو ورچوئل کر دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اس فیصلے سے اس کی پالیسی میں بدلاؤ کا اشارہ ملتا ہے۔
نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک 'انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرس' (آئی سی ڈبلیو اے) کے سابق فیلو اور عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت نے مودی کی عدم شرکت کی وجہ پارلیمانی اجلاس کو بتایا ہے لیکن کچھ اور باتیں بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ چین مغرب، یورپی یونین اور امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے جب کہ ان ملکوں سے بھارت کی قربت بڑھتی جا رہی ہے۔
ان کے بقول ایک اہم بات یہ ہے کہ اب ایس سی او چین کی قیادت میں ایک مغرب دشمن فورم کی شکل میں بدلتا جا رہا ہے۔ وہ سیاسی فورم بن گیا ہے اور اسے مغرب مخالف تنظیم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بعض دیگر تجزیہ کاروں کی قیاس آرائی ہے کہ ایس سی او میں بھارت کی کم ہوتی دلچسپی کی ایک وجہ اس پر امریکہ کا دباؤ ہو سکتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بھارت کسی مغرب مخالف فورم میں سرگرم رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت چین کی بالادستی والے کسی فورم میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لے سکتا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین امریکہ کے دباؤ کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس یوکرین جنگ کی صورت میں امریکہ نے جب روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو بھارت نے ان پابندیوں کا کوئی اثر نہیں لیا اور وہ روس سے زیادہ سے زیادہ تیل خریدتا رہا۔ اس کے علاوہ اس نے اقوامِ متحدہ میں روس کی مذمت والی کسی بھی قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ بھارت پر امریکہ کا دباؤ ہے، بے بنیاد بات ہے۔
واضح رہے کہ جب بھارت کے روس سے تیل خریدنے کی مخالفت کی جا رہی تھی تو وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کا مؤقف تھا کہ یورپی ملک بھارت سے زیادہ روسی تیل خرید رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں لیکن بھارت نے چا بہار بندرگاہ کے سلسلے میں اس سے معاہدہ کیا اور کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
SEE ALSO: چینی سرحد کے قریب بھارتی ٹینک ڈوب گیا، پانچ فوجی ہلاکڈاکٹر ذاکر حسین کے بقول بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے۔ گزشتہ 10 برس کے دوران اس نے اپنی اس پالیسی کو مزید پختہ کیا ہے۔ وزیرِ اعظم مودی کا ایس سی او اجلاس میں شرکت نہ کرنا اسی پالیسی کے تحت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف چین اور بھارت کی باہمی تجارت کو تو فروغ حاصل ہو رہا ہے تو دوسری طرف چین نے گلوان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے دونوں کے درمیان کمانڈر سطح کے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا مودی کی عدم شرکت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پروفیسر ڈاکٹر رنجن کمار کا اخبار 'فنانشل ایکسپریس' سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سفارتی اخلاقیات میں باہمی رویے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ بھارت کو یہ بات یاد ہو کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال نئی دہلی میں منعقد ہونے والے گروپ-20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
ادھر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اجلاس کے آخری دن اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی اور باہمی سرحدی تنازعات بالخصوص لداخ اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر تنازعات کو حل کرنے پر گفتگو کی۔
انہوں نے دیگر تنازعات کو بھی حل کرنے کے لیے سفارتی و فوجی سطح پر ہونے والی کوششوں کو بڑھانے پر زور دیا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ دراصل چینی وزیرِ خارجہ سے ایس جے شنکر کی ملاقات بھارت کی بالغ نظر خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
جیو پولیٹیکل ماہر برہما چیلانی نے ’نکی ایشیا ڈاٹ کام‘ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کی بے چینی چین کے سلسلے میں ہے۔ ایس سی او میں چین کے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کو چھوڑ کر ایس سی او کے تمام رکن چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ہم واقعات پر نظر ڈالیں تو واضح ہو گا کہ مودی اور شی سربراہی اجلاسوں میں کوئی بہت زیادہ تبادلہ خیال نہیں کرتے رہے ہیں۔
SEE ALSO: چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش کے مزید معاہدےان کے بقول گزشتہ سال جنوبی افریقہ میں منعقدہ برکس اجلاس میں انہوں نے مختصر ملاقات کی تھی جب کہ بالی میں منعقدہ گروپ-20 کے اجلاس میں انہوں نے مختصر بات چیت کی۔ اس کے علاوہ سمرقند میں 2022 میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں دونوں کے درمیان ملاقات ہی نہیں ہوئی۔
سال 2020 کے بعد سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ نئی دہلی نے بیجنگ کے لیے براہ راست پرواز کی تجدید سے انکار کر دیا ہے۔ دونوں کی افواج کے درمیان مئی 2020 میں خونی لڑائی کے بعد سرحدی تنازعے کو دور کرنے کے لیے 21 ادوار کے مذاکرات بھی ہو چکے ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ تیزی سے بدلتی جیو پولیٹکس کے دور میں بھارت نہیں چاہتا کہ وہ کسی ایک گروپ کا حصہ بن کر رہ جائے۔
واضح رہے کہ یہ فورم چین کے شہر شنگھائی میں 2001 میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران روس، چین، کرغزستان، قزاقستان، تاجکستان اور ازبکستان کے صدور نے قائم کیا تھا۔ بعد ازاں 2017 میں اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ایران کو 2023 میں اس فورم میں شامل کیا گیا جب کہ متعدد ممالک مبصر کی حیثیت سے شامل ہیں۔