امریکہ میں 2023میں ہونے والی فائرنگ کے واقعات میں اب تک 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو اوسطً ایک شخص فی ہفتہ بنتا ہے اور جن کے اہلِ خانہ، عزیز رشتے دار اس تشدد کا شکار ہوکر اس دنیا سے چلے گئے انہیں یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ یہ واقعات مسلسل کیوں ہو رہے ہیں؟
یہی سوال رچرڈ برگر کا بھی ہے جن کا بیٹا پانچ سال پہلے اپنی 44 ویں سالگرہ کے ایک روز بعد فائرنگ کا شکار ہو کر چل بسا تھا۔ 2017 میں لاس ویگس سٹرپ میں لوک موسیقی کے ایک فیسٹیول میں ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس میں 60 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسے امریکی تاریخ میں شوٹنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد کہا گیا مگر یہ سلسلہ رکا نہیں۔
برگر کہتے ہیں یہ چیز ان کے دل میں سوراخ جیسی ہے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں۔
SEE ALSO: امریکہ: ٹیکساس کے شاپنگ مال میں فائرنگ سے آٹھ افراد ہلاکاس سال کے پہلے چار ماہ اور چھ دنوں میں فائرنگ سے قتل کے 22 واقعات میں 115 افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں تازہ ترین واقعہ ریاست ٹیکساس کے مال میں شوٹنگ کا ہے جس میں 8 افراد کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کسی سال کے اوائل میں 2006 کے بعد سے فائرنگ میں ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
ماہرین کے مطابق اس میں جن عوامل کا عمل دخل ہے ان میں آتشیں اسلحہ کا فروغ، اسلحہ کے قوانین کی عدم موجودگی، کرونا وائرس کی وباء کے اثرات، سیاسی فضا میں با معنی انداز میں کسی تبدیلی سے گریز اور امریکی معاشرے میں تشدد کے عنصر میں اضافہ شامل ہیں۔
گن وائلنس کا کوئی جواز فراہم کرنا یا اس کی وجوہات کا بیان نہ تو اس سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے کسی مرہم کا باعث ہے نہ ہی دیگر امریکیوں کو کوئی اطمینان دلا سکتا ہے کیونکہ ایسے المناک واقعات سبھی کو متاثر کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سال جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی نوعیت کئی طرح کی ہے۔ گھریلو یا پڑوس کے جھگڑوں سے لے کر اسکولوں، ملازمت کے مقامات پر فائرنگ یا پبلک مقامات پر اندھا دھند گولیاں برسا دینے کے واقعات نے شہروں اور دیہات سب کو متاثر کیاہے جن میں کبھی تو لوگوں کو قاتل کا علم ہوا اور کبھی وہ اس کے بارے میں کچھ نہ جان سکے۔
فائرنگ میں 24 گھنٹے میں چار یا چار سے زیادہ لوگ مارے جائیں تو ایف بی آئی اسے قتلِ عام کا درجہ دیتا ہے۔
لیکن بندوق کا استعمال اس سال جن 14000 لوگوں کی موت کا سبب بنا ان میں سے، 'گن وائلنس آرکائیو' کے مطابق جو اعدادوشمار جمع کرنے کے لیے نیوز میڈیا اور پولیس رپورٹس سے مدد لیتا ہے، نصف تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے خودکشی کی۔ اور ایسے واقعات زیادہ تواتر سے ہوئے جن میں چار سے کم لوگ ہلاک ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فائرنگ سے ہلاکتوں کے واقعات نے لوگوں کے دلوں میں شدید خوف پیدا کر دیا ہے۔
"لوگ اب بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں مگر انہیں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو گولی تو نہیں لگ جائے گی؟" یہ کہنا ہے ڈینیل ویبسٹر کا جو جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں گن وائلنس کا حل تلاش کرنے کے سینٹر میں پروفیسر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کولمبین کے 20 سال بعد، سینڈی ہوک میں بچوں کے ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کے 10 سال بعد، لاس ویگس میں شوٹنگ کے پانچ سال بعد، بفلو نیویارک کی سپر مارکیٹ میں فائرنگ کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا اور یو والڈی ٹیکساس کے ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ بھی قریب کا واقعہ ہے اور اسی اختتامِ ہفتہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں شاپنگ مال میں مسلح شخص نے فائرنگ کر کے آٹھ افراد کو ہلاک اور سات کو زخمی کر دیا۔یہ سب واقعات کے بعد ایک ہی سوال کی گونج سنائی دیتی ہے کہ کیوں؟ ایسا کیوں کیا گیا؟
کسی کے پاس شاید اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ صدر بائیڈن جو بندوقوں پر سخت کنٹرول کے پکے حامی ہیں اکثر جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں کہ آخر کانگریس نیم خودکار رائفلوں پر پابندی عائد کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟
SEE ALSO: کانگریس گن وائلنس پر پابندی کا بل جلد منظور کرے: صدر بائیڈنگزشتہ سال بائیڈن نے ایک بل کو قانون کی شکل دی تھی جس کے تحت اسلحہ کے کم عمر خریداروں کے کوائف کی کڑی چھان بین، گھریلو تشدد میں ملوث افراد کو اسلحہ کے حصول سے روکنا اور ریاستوں کے لیے ایسے قوانین کا حصول ممکن بنانا ہے جو پولیس کو عدالتوں سے اس درخواست کا اختیار دیں کہ وہ تشدد پر مائل افراد سے ان کا اسلحہ واپس لے سکیں۔
تاہم یہ تمام قانون سازی اور دیگر اقدامات بندوقوں کے اس تشدد یا لوگوں کی تکلیف میں کمی نہیں کر سکے۔
سٹیفن برگر کے والد رچرڈ برگر کی عمر اب 80 سال ہے۔ وہ اپنے دن اپنے پوتوں کے ساتھ بتا رہے ہیں جن میں سے ایک فٹ باہ کا گول کیپر ہے جو انہیں سٹیو کی یاد دلاتا ہے جو باسکٹ بال کا دیوانہ تھا۔ ان کا خاندان سٹیفن کے ہائی اسکول کو سالانہ ایتھلیٹک سکالر شپس بھی دیتا ہے، لیکن بیٹے کی موت کے پانچ سال بعد بھی رچرڈ برگر کا وہی سوال ہے کہ ۔۔۔کیوں؟؟
( اس خبر میں معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)