|
نئی دہلی — بھارت میں سات مراحل میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں بدھ کی شام انتخابی مہم ختم ہو گئی۔ اس مرحلے میں جمعے کو 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
جمعے کو اتر پردیش، تمل ناڈو، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، آسام، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال اور جموں و کشمیر شامل ہیں۔ اس دوران جن امیدواروں کی قسمت داؤ پر لگی ہوئی ہے ان میں آٹھ مرکزی وزرا اور دو سابق وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔
مرکزی وزرا میں نتن گٹکری، کرن رجیجو، سربانند سونووال، جتیندر سنگھ، بھوپیندر یادو اور ارجن رام میگھوال قابل ذکر ہیں۔
پہلے مرحلے کی انتخابی مہم کے آخری روز وزیرِ اعظم نریندر مودی نے آسام اور تری پورہ میں دو ریلیوں سے خطاب کیا جب کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی قیادت میں کرناٹک میں دو ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ راہل گاندھی نے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کی جب کہ کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے اتر پردیش کے ضلع سہارنپور میں ریلی کی۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور حلیف جماعتوں کے اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کے لیے 400 سے زائد سیٹوں پر کامیابی کا ہدف مقرر کیا ہے جس میں بی جے پی کے لیے 370 نشستوں کا ہدف رکھا گیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس‘ (انڈیا) میں شامل جماعتیں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کی تلاش اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
’اب کی بار، چار سو پار‘
بی جے پی کے رہنما انتخابی ریلیوں میں جہاں مودی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کر رہے ہیں وہیں وہ رام مندر، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے اور دیگر مذہبی ایشوز کو بھی اٹھا رہے ہیں۔
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں تیسری بار برسر اقتدار آنے پر پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ، 2047 تک ملک کو ترقی یافتہ بنانے، ایک ملک ایک الیکشن اور نوجوانوں، خواتین، کسانوں اور پسماندہ طبقات کو با اختیار بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں جہاں معاشرے کے تمام طبقات، جن میں نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں، کی فلاح و بہبود کے لیے پروگراموں کا اعلان کیا ہے وہیں اس نے اقلیتوں اور کسانوں کی شکایات کو دور کرنے اور ان کے مطالبات کو اہمیت دی ہے۔ اس نے احتجاجی کسانوں کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم کا نعرہ ’اب کی بار، چار سو پار‘ کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہے۔ بی جے پی نے 2019 کے انتخابات میں جتنی نشستیں (303) حاصل کی تھیں وہ اس کی کامیابی کی انتہا تھی۔ اس بار اتنی نشستوں کا حصول ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ 1984 میں اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو 400 سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے حکومت بنائی تھی۔ کسی اور الیکشن میں کسی جماعت کو اتنی نشستیں نہیں ملی ہیں۔
اتر پردیش کی 80 نشستیں اور عوام کی بی جے پی سے ناراضگی
پہلے مرحلے میں مغربی اترپردیش کے کئی حلقوں میں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے جہاں کسان، جاٹ اور مسلمان خاصی تعداد میں ہیں۔
ریاست میں سب سے زیادہ 80 سیٹیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں جہاں پولنگ ہونی ہے ان میں سہارنپور، کیرانہ، مظفر نگر، بجنور، نگینہ، مراد آباد، رام پور اور پیلی بھیت بھی شامل ہیں۔
ان حلقوں میں بی جے پی کے حوالے سے شدید ناراضگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علاقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کو داخل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔
ان حلقوں کا دورہ کرنے والے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ یہ علاقے جاٹ بیلٹ یا گنا بیلٹ کہلاتے ہیں۔ ان علاقوں میں لوگ بی جے پی سے ناراض ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں سابق وزیرِ اعظم چوہدری چرن سنگھ کے پوتے جینت چوہدری کی پارٹی ’راشٹریہ لوک دل‘ (آر ایل ڈی) کا اثر زیادہ ہے۔ لیکن مقامی باشندوں نے ان سے گفتگو میں بتایا کہ لوگ جینت چوہدری کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے خوش نہیں ہیں۔
بھارت کے انتخابات کے بارے میں مزید جانیے
بھارت میں عام انتخابات 2024 کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟بھارت: انتخابات میں مسلمان ووٹرز اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے؟بھارت: الیکشن مہم میں پاکستان بنانے والی مسلم لیگ پر بحث کیوں؟ بھارت: ڈیپ فیک ٹولز کس طرح الیکشن کے لیے 'خطرہ' بن رہے ہیں؟ بھارت میں سیاسی جماعتوں میں خواتین ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی دوڑ کیوں لگی ہے؟’انڈیا‘ بھی سیاسی فائدہ اٹھانے میں ناکام
بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوگوں میں بی جے پی سے ناراضگی تو ہے اور وہ مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے پریشان ہیں۔ لیکن جب وہ ووٹ دینے جاتے ہیں تو ان کے دل و دماغ پر مذہب چھا جاتا ہے اور وہ بی جے پی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ اپوزیشن کا اتحاد ’انڈیا‘ بی جے پی سے عوام کی ناراضگی کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے۔
ریاست میں ’انڈیا‘ اتحاد میں صرف دو جماعتیں ہیں جن میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی شامل ہیں۔
اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں کچھ بی جے پی کے ساتھ ہیں اور کچھ تنہا لڑ رہی ہیں۔
جنوبی ریاستوں میں رائے عامہ منقسم
وزیر اعظم کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے زیادہ رکاوٹ جنوبی ریاستیں بن رہی ہیں۔ تمل ناڈو میں کل 39 سیٹیں ہیں اور پہلے مرحلے میں ان تمام پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنوب کی پانچ ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، کیرالہ اور تیلنگانہ میں ملک کی مجموعی آبادی کا 20 فی صد ہے۔ وہاں کل 131 سیٹیں ہیں جن میں 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو صرف 30 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ تمل ناڈو، کیرالہ اور آندھرا پردیش میں اسے کوئی سیٹ نہیں مل سکی تھی۔
ان پانچوں ریاستوں میں اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ہے۔ مبصرین کے مطابق وہاں کے عوام مذہبی عصبیت سے دور ہیں۔ لہٰذا وہاں رام مندر، سی اے اے اور یکساں سول کوڈ کا کوئی اثر نہیں ہے۔ بلکہ جنوب کی دیگر ریاستوں میں سی اے اے کے خلاف احتجاج ہوا ہے۔
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے شوہر پرکالا پربھاکر اس وقت مختلف نیوز چینلز، اخباروں اور سوشل میڈیا کو انٹرویوز دے رہے ہیں۔ وہ اقتصادی امور کے ماہر اور سینئر سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس بار ملک شمال اور جنوب میں تقسیم ہو جائے گا جس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا۔
انہوں نے کئی یو ٹیوب چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس بار مودی حکومت نہیں بنے گی۔
ان کے مطابق بی جے پی کو 120 سے 130 کے درمیان ہی سیٹیں ملیں گی۔
واضح رہے کہ وہ مودی حکومت کے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔
مودی کا ہدف تمل ناڈو میں کامیابی
وزیرِاعظم مودی بالخصوص تمل ناڈو میں بی جے پی کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے انتخابی مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک ریاست کے چھ دورے کیے ہیں۔
ان کی ہندی تقریر آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے تیار کی گئی ایک ایپ کے ذریعے تمل زبان میں ترجمہ کی جاتی ہے۔
بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کی جانب سے ریاست میں حکمراں ڈی ایم کے کو ہندو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے دیا ندھی اسٹالن نے ’سناتن دھرم‘ (ہندو دھرم کا متبادل) کے خلاف بیان دیا تھا جس کو بی جے پی نے انتخابی ایشو بنانے کی کوشش کی ہے۔
تاہم دہلی کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی جس کو 2019 میں ریاست میں صرف چار فی صد ووٹ ملے تھے، اس بار اپنا ووٹ بڑھائے گی اور اسے وہاں کچھ سیٹیں بھی مل سکتی ہیں۔
بی جے پی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عوام مودی حکومت کی کارکردگی پر اسے ووٹ دیتے ہیں اور تیسری بار بھی مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت قائم ہوگی۔