پاکستان کے صوبے پنجاب کی سیاست میں وزیرِ اعلیٰ کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کی بحث ایک مرتبہ پھر زور پکڑتی جا رہی ہے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ رکھا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز الٰہی کی درخواست پر کیس کی سماعت کی تاریخ بھی قریب آ رہی ہے۔
ایسے میں چوہدری پرویز الہیٰ کہتے ہیں کہ اسمبلی سےاعتماد کے ووٹ سے متعلق وہ گورنر کے خط کو غیر آئینی سمجھتے ہیں اس لیے وہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ان کے بقول اُنہیں اعتماد کا ووٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا مطلب گورنر کا خط تسلیم کرنا ہوگا۔
صوبے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کوشش ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی 11 جنوری سے قبل پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں اور پھر لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے لیے پیش ہوں۔اِسی مقصد کے لیے 9 جنوری کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔
اسمبلی سیکریٹریٹ نے جمعرات کو پنجاب اسمبلی کےاجلاس کا ایجنڈا بھی جاری کر دیا ہے جس کے مطابق اجلاس کی صدارت اسپیکر سبطین خان کریں گے۔
SEE ALSO: گورنر پنجاب کا نوٹی فکیشن معطل، پرویز الہٰی وزارتِ اعلٰی پر بحال ہو گئےپی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں پارٹی کو 186 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور عمران خان کو بھی اس سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کی نشتسوں کی تعداد 179ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے تین رکنِ اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے سکتےہیں یا اجلاس سے غیر حاضر ہو سکتے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی مومنہ وحید اور زہرا نقوی نے حال ہی میں پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
'پرویز الہیٰ ہی وزیرِ اعلیٰ رہیں گے'
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مومنہ وحید سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہو سکیں۔ تاہم اُن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پرویزالہٰی کواعتماد کا ووٹ نہیں دیں گی۔ اُن کے بقول، پرویزالہٰی صرف گجرات اورمنڈی بہاؤالدین میں ترقیاتی کام کرا رہے ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کا پُرانا کارکن دلبرداشتہ ہے۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال اسی طرح چلتی رہے گی اور پرویز الٰہی صوبے کے وزیراعلٰی رہیں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے لیکن پرویز الٰہی باآسانی ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت نے پرویز الٰہی کو وزیراعلٰ پنجاب کے منصب پر اِس شرط پر بحال کیا ہے کہ وہ اسمبلیاں نہیں توڑیں گے جس پر انہوں نے عدالت کو تحریری طور پر یقین دہانی کرا دی ہے۔
ان کے بقول ، جب تک کیس عدالت میں زیرِِ سماعت ہے یا وہ عدالتی حکم ختم نہیں ہو جاتا پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری نہیں بھجوا سکتے۔
SEE ALSO: پنجاب کا سیاسی بحران: خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل بھی غیر یقینیکالم نویس اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے ، انہیں عدالت نے ایسا کرنے کا پابند نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نو جنوری کو ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں کہیں بھی اعتماد کے ووٹ کا ذکر نہیں ہے۔
سلمان غنی کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور خاص طور پر صوبہ پنجاب کی سیاست اسی طرح چلتی رہے گی، کیوں کہ پنجاب میں پرویز الہیٰ کو لانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اسمبلی چلتی رہے۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اگر وہ بھی ختم کر دی جائے اُن کی طاقت ختم ہو جائے گی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق)کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان آئین اور قانون سے باہر جا کر اسمبلی تحلیل کرنے کا نہیں کہہ سکتے جب کہ پی ٹی آئی کا بڑا حصہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی صورتِ حال بگڑتی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح ملک کے لیے اچھی روایت نہیں ۔ ملک کے بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی ڈیڈ لاک کو توڑنا ضروری ہے۔