پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے 14 اضلاع کی 20 نشستوں پر 17 جولائی کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ان انتخابات میں کامیابی سےجہاں امیدوار آئندہ عام انتخابات میں اپنا سیاسی وزن بڑھائیں گے وہیں سیاسی جماعتوں کی آئندہ کی حکمتِ عملی کا انحصار بھی انہی انتخابی نتائج پر ہے۔
پنجاب کے جن اضلاع میں اتوار کو ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں راولپنڈی، لاہور، خوشاب، شیخوپورہ، فیصل آباد، ساہیوال، بہاولنگر، ملتان،مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، لودھراں، جھنگ، بھکر اور لیہ کےحلقے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) کے مطابق پنجاب میں پی پی 7 راولپنڈی، پی پی 83 خوشاب، پی پی 90 بھکر، پی پی 97 فیصل آباد، پی پی 125 جھنگ، پی پی127 جھنگ، پی پی 140 شیخوپورہ، پی پی 158 لاہور، پی پی 167 لاہور، پی پی168 لاہور، پی پی 170 لاہور، پی پی202 ساہیوال، پی پی217 ملتان، پی پی224 لودھراں، پی پی228 لودھراں، پی پی237 بہاولنگر، پی پی 272 مظفر گڑھ، پی پی282 لیہ اور پی پی 288 ڈیرہ غازی خان میں ضمنی انتخابات ہوں گے۔
ای سی پی کے مطابق پنجاب کے 14 اضلاع میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مجموعی ووٹرز کی تعداد 45 لاکھ79 ہزار900 ہے جس میں سے مرد ووٹرز 24 لاکھ60 ہزار 206 ہیں جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 21 لاکھ 19 ہزار 694 ہے۔ ان ووٹرز کے لیے مجموعی طور پر تین ہزار 129پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے جب کہ پولنگ بوتھ کی تعداد 9 ہزار 599 ہو گی۔
صوبے میں ان ضمنی انتخابات کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات میں سخت مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ جس کے باعث ووٹ ڈالنے کی شرح یعنی ٹرن آؤٹ بھی ٹھیک ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ان انتخابات پر زیادہ زور دے رہی ہیں اور اسے باریک بینی سے دیکھ رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کی طرف سےتیزی سے چلائی جانے والی انتخابی مہم کے باعث یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح بہتر ہوگی، اتنی کم نہیں جتنی کسی اور ضمنی انتخاب میں ہوتی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کی ایک سائنس ہوتی ہے۔جس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) قدرے بہتر واقف ہے۔
ووٹ ڈالنے کی شرح سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جتنے بھی ضمنی انتخاب ہوئے ہیں، ان میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہی ہے۔البتہ ان ضمنی انتخابات کے بارے میں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابی معرکہ جس عروج پر پہنچ گیا ہے اس سے لگتا ہےکہ ماضی کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھے گی۔
سلمان غنی کے بقول دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیے 'ڈو اور ڈائی' والی صورتِ حال ہے۔
ضمنی انتخابات کے سلسلے میں یہ دونوں جماعتیں پنجاب کے ان اضلاع میں بڑے بڑے جلسے بھی کر رہی ہیں، جن میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیے پنجاب میں ضمنی انتخابات: نواز شریف منظر نامے سے غائب کیوں؟البتہ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کے جلسوں کا حجم قدرے بڑا ہوتا ہے۔ لیکن جلسے کا سائز کسی بھی الیکشن میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا۔
سہیل وڑائچ کے بقول پی ٹی آئی کا جلسہ کرنے کا اپنا ایک انداز ہے، جس کے باعث لوگوں کی زیادہ تعدادجلسے میں جاتی ہے۔
سلمان غنی بھی سہیل وڑائچ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جلسوں کے سائز کے حساب سے پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔
کس جماعت کو نفسیاتی برتری حاصل ہے؟
ضمنی انتخابات کے کیا نتائج ہوں گے یہ تو ووٹنگ کے بعد ہی پتا چلےگا۔ مگر سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کو پرانی سیاسی جماعت ہونے کے باعث تحریک انصاف پر نفسیاتی برتری حاصل ہو سکتی ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) واضح اکثریت حاصل کرسکتی ہے اور اس کے امیدوار زیادہ تعداد میں جیت سکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کو قدرے سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 20 میں سے 10 وہ لوگ ہیں جو ماضی کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کےطور پر کامیاب ہوئے تھے۔ یہ ایسے امیدوار ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔
ان کے بقول اس وجہ سے یہ امیدوار باقیوں کی نسبت قدرے مضبوط سیاسی قد کاٹھ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باقی 10 امیدوار 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے جیت کر آئے تھے۔ جو اب منحرف ہو چکے ہیں، لہٰذا انہیں بھی مسلم لیگ(ن) کے ووٹ ملیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں مسلم لیگ(ن) کی سیاسی پوزیشن قدرے بہتر نظر آتی ہے۔اور 17 جولائی کے ان ضمنی الیکشن میں 8-12 کی شرح رہ سکتی ہے یعنی مسلم لیگ(ن) 12 اور پی ٹی آئی 8 نشستیں جیت سکتی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت کا دعوی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کے باوجود ان کی پارٹی زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گی۔
کون کس کے مدِمقابل ہوگا؟
ان حلقوں میں کس امیدوار کا مقابلہ کس سے ہے اور ماضی میں یہاں کے کیا نتائج تھے؟ آئیے جانتے ہیں۔
پی پی7 راولپنڈی: اس نشست پر پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجہ صغیر احمد کا مقابلہ شبیر اعوان سے ہوگا۔ راجہ صغیر مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ شبیر اعوان پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں راجہ صغیر نے آزاد امیدوار کے طور پر 44 ہزار 286 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی، اور بعد ازں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔
پی پی 83 خوشاب: اس حلقےمیں پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک غلام رسول کے بھائی امیر حیدر سنگھان الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ رکن قومی اسمبلی عامر اسلم کے چھوٹے بھائی حسن اسلم سے ہوگا، جو پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس حلقے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی آصف بھا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح عامر محمود ٹوانہ پی ٹی آئی کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔
پی پی90 بھکر: یہاں پی ٹی آئی کے منحرف رکن سعید اکبر خان نوانی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے عرفان اللہ نیازی سے ہوگا۔ عرفان نیازی ضلع میں مسلم لیگ(ن) کے سابق جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں جب کہ وہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے رشتے دار بھی ہیں۔
پی پی 97 فیصل آباد: پی ٹی آئی کے منحرف رکن اور سابق صوبائی وزیر محمد اجمل چیمہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد افضل کے بیٹے علی افضل ساہی سے ہوگا۔
محمد اجمل2018 کے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے اور بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔ البتہ علی افضل ساہی دوسرے نمبر پر تھے۔
پی پی128 جھنگ: اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن فیصل حیات مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے محمد اعظم چیلہ سے ہوگا۔
پی پی 127 جھنگ: یہاں پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے مہر محمد اسلم بھروانہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے مہر محمد نواز بھروانہ کے مدِمقابل ہوں گے۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی کے منحرف اراکین مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب میں میدان مار سکیں گے؟سن 2018 کے عام انتخابات میں مہر اسلم 790 ووٹوں کی برتری لے کر مہر نواز سے کامیاب ہوئے تھے۔
پی پی 140 شیخوپورہ: اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف علیم خان گروپ کے رکن میاں خالد محمود مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے خرم شہزاد ورک کا مقابلہ کریں گے۔
پی پی 158 لاہور: یہاں پی ٹی آئی کے منحرف رکن علیم خان الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔ ان کی جگہ مسلم لیگ(ن) کے احسن شرافت اور پی ٹی آئی کے اکرم عثمان کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
پی پی167 لاہور: اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن ںذیر احمد چوہان، جن کا تعلق جہانگیر ترین گروپ سے ہے۔ وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پرالیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے شبیر گجرسےہوگا۔
ٌپی پی 168 لاہور: یہاں پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک اسد علی کھوکھر مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر جب کہ ملک نواز اعوان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آمنے سامنے ہوں گے۔
پی پی170 لاہور: صوبائی دارالحکومت کے اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کے جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے محمد امین ذوالقرنین کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ظہیر کھوکھر سے ہوگا۔
پی پی202 ساہیوال: اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک نعمان لنگڑیال مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے میجر(ر)غلام سرور کے مدِمقابل ہوں گے۔
پی پی217 ملتان: یہاں پی ٹی آئی کے منحرف ایم پی اے سلیمان نعیم مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ سابق وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی سے ہوگا۔ سلیمان نعیم نے 2018 کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔
پی پی224 لودھراں: اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن زوار حسین وڑائچ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ ہیں۔
اس سے قبل عامر اقبال کے والد سید اقبال نے ضمنی انتخاب میں اس حلقے میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو شکست دی تھی۔
ٌپی پی228 لودھراں: پنجاب کے اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن نذیر احمد بلوچ کا مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے کیپٹن(ر) عزت جاوید خان سے ہوگا۔
پی پی 237 بہاولنگر: یہاں منحرف رکن فدا حسین مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مدِ مقابل پی ٹی آئی کےامیدوار ہیں۔
ٌپی پی 272 مظفر گڑھ: اس حلقے سے زہرہ باسط سلطاف بخاری مسلم لیگ(ن) کی امیدوار ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے امیدوار معظم علی جتوئی ہیں۔
پی پی273 مظفر گڑھ: ضمنی انتخاب میں یہاں پی ٹی آئی کے منحرف رکن محمد سبطین رضا مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار یاسر عرفات خان جتوئی سے ہوگا۔
پی پی282 لیہ: اس حلقے میں محمد طاہر رندھاوا مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے قیصر عباس مگسی کا مقابلہ کریں گے۔
سال 2018 کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے محمد طاہر رندھاوا نے کامیابی حاصل کی تھی اور بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔
SEE ALSO: پنجاب کے ضمنی انتخابات پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے کیوں اہم ہیں؟واضح رہے کہ قیصر عباس سال 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر دو بار رکن اسمبلی پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
پی پی 288 ڈیرہ غازی خان: پنجاب کے اس حلقے سے ڈی سیٹ ہونے والے محسن عطا کھوسہ اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ ان کی جگہ موجودہ ایم این اے امجد فاروق خان کھوسہ کے صاحبزادے عبدالقادر خان کھوسہ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ ان کے مدِمقابل پی ٹی آئی کے سیف الدین کھوسہ ہیں۔
کن حلقوں میں سخت مقابلہ ہوسکتا ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے نزدیک لاہور کی چاروں نشستوں پر سخت مقابلہ متوقع ہے۔ ان کے بقول چار نشستوں میں سے دو پر مسلم لیگ(ن) اور دو پر پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔
ان کے بقول جنوبی پنجاب سیاسی اعتبار سے شروع سے مسلم لیگ(ن) کا کمزور حصہ رہا ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی اور ترین گروپ قدرےمضبوط سمجھےجاتے ہیں۔
البتہ سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ویسے تو تمام ہی حلقوں میں اچھے سیاسی مقابلے کی توقع ہے۔ مگر چند حلقوں میں تگڑے سیاسی مقابلے دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ ان میں لاہور کے چاروں حلقے، ملتان، خوشاب، جھنگ اور مظفر گڑھ کے حلقے شامل ہیں۔