امریکہ کی وزیرِ خزانہ جینٹ ییلن نو ماہ میں بھارت کا تیسرا دورہ کر رہی ہیں جس کے دوران وہ 20 ممالک کے جی ٹوئنٹی کے نام سے جانےوالے گروپ کے اجلاس میں شرکت اور واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان قریبی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر بات چیت کریں گی۔
جینٹ ییلن نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا تھا جس کے فوری بعد اب وہ بھارت جا رہی ہیں۔ نئی دہلی کے ان کے متعدد دورے واشنگٹن کے بیجنگ کے ساتھ کشیدگی کے دوران امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی اہمیت کے عکاس ہیں۔
گاندھی نگر میں ہونے والے جی ٹوئنٹی گروپ میں شامل ملکوں کے وزرائے خزانہ سے ییلن عالمی اقتصادی چیلنجوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کریں گی جن میں کم آمدنی والے ممالک کے قرضوں کے سبب نادہندہ ہونے کا بڑھتا ہوا خطرہ بھی شامل ہوگا۔
امریکی وزیرِ خزانہ کے دورۂ بھارت کے تین اہداف بیان کیے جا رہے ہیں جن میں معاشی بدحالی کے شکار ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی تنظیم نو کے لیے دباؤ میں اضافہ، عالمی ترقیاتی بینکوں کو جدید بنانا تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں پر مزید مرکوز ہوں او رامریکہ اور بھارت کے تعلقات کو مزید گہرا کرنا شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات پر گفت و شنید کے دوران بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہوں گے کیوں کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے روس کی معیشت کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی پابندیوں کی کوششوں کے باوجود بھی ماسکو کی جنگ جاری ہے۔
بھارت نے روس کو یوکرین میں جنگ شروع کرنے کی سزا دینے کی کوششوں میں حصہ نہ لیتے ہوئے غیر جانب دار رہنے کا طرِ عمل اپنایا تھا۔ نئی دہلی نے ماسکو کے ساتھ توانائی کی تجارت کو برقرار رکھا جب کہ روس کے ساتھ تجارت کو جی ٹوئنٹی کی جانب سے روسی تیل کی خریداری کی حد مقررکرنے کے باوجود جاری رکھا۔
جی ٹوئنٹی کے اس اقدام نے روس کی معیشت کو سست کرنے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔
ابھی گزشتہ ماہ ہی امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کے دورے کی میزبانی کی تھی۔ مودی کے اس دورے کامقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا تھا۔
امریکی اور بھارتی رہنماؤں نے جون میں ہونے والے اس دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ دوطرفہ تعلقات پہلے کبھی اتنے مضبوط نہیں ہوئے تھے۔ دونوں ممالک نے نئے تجارتی معاہدوں پر عمل درآمد کا آغاز بھی کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس حوالے سے تھنک ٹینک ’سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں امریکہ و بھارت تعلقات کے پالیسی ماہر ریمنڈ وکیری جونیئر کہتے ہیں کہ جینٹ ییلن کا چین کا دورہ کرنے کے فوراً بعد بھارت آنا اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ بھارتی حکام بڑی تفصیل سے جاننا چاہیں گے کہ امریکی وزیرِ خزانہ کی بیجنگ میں اپنے ہم منصب سے ملاقاتوں میں کیا بات چیت ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت یہ جاننا چاہے گا کہ امریکی اور چینی حکام کی بات چیت نئی دہلی کے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے بارے میں نقطۂ نظر سے کہاں تک مطابقت رکھتی ہے۔
ان کے بقول بھارتی رہنما یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا امریکہ اپنی کچھ اقتصادی سرگرمیاں چین سے بھارت منتقل کرنے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔
SEE ALSO: چین کس حد تک امریکہ، بھارت تعلقات کو مضبوط کرنے کا باعث ہے؟ییلن نے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے دورہ بیجنگ میں چین کی وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور باہمی تجارتی پابندیوں اور قومی سلامتی کے خدشات پر تبادلۂ خیال کیا۔
امریکہ اور چین کے تعلقات میں قومی سلامتی کے خدشات کے پہلوپر بات کرتے ہوئے تحقیقی ادارے ’ہڈسن انسٹیٹیوٹ‘ کے سینئر فیلو ہیرالڈ ڈبلیو فرچٹگ وٹ روتھ نے کہا کہ ییلن کا نئی دہلی کا دورہ قدرتی طور پر امریکہ اور بھارت کے آگے بڑھتے ہوئے اتحاد کا اظہار ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا چین کے ساتھ بہت زیادہ تناؤ ہے- ان کے مستقل سرحدی تنازعات ہیں۔ بھارت ترقی کرنا چاہتا ہے اور بحر ہند کی بحری طاقت کے طور پر خود کو تیار کر رہا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جسے چین بھی ترقی دینا چاہتا ہے۔