Asad Sohaib is a multimedia journalist based in Lahore, Pakistan.
چوہدری پرویز الہٰی اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان پنجاب اسمبلی نے چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان سے ملاقات کر کے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
پرویز مشرف 1985 سے 1998 تک لیفٹننٹ کرنل سے ترقی کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل کے رینک تک پہنچے اور اس کے بعد اُن کی زندگی میں وہ اہم موڑ آیا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے مطابق عمران خان نے سوچ سمجھ کر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ فوج کی نئی قیادت چاہتی ہے کہ صحیح معنوں میں نیوٹرل ہوکر تمام جماعتوں کے ساتھ چلا جائے۔ پرویز الہٰی کا مزید کیا کہنا تھا؟ جانتے ہیں اسد صہیب کو دیے گئے انٹرویو میں
چوہدری پرویز الہٰی پنجاب میں تحریکِ انصاف کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعلٰی ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایسے میں اُن کے لیے عمران خان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربتیں برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
سن 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سمیت اس فارمیٹ میں کھیلے گئے اب تک کے سات ایڈیشنز میں کچھ میچز کے سنسنی خیز لمحات آج بھی کرکٹ شائقین کے ذہنوں پر نقش ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے 1993 میں انتقال کے بعد مسلم لیگ (جونیجو) کی کمان حامد ناصر چٹھہ نےسنبھالی تھی۔ مسلم لیگ کا یہ دھڑا میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں موجود مسلم لیگ (ن) سے ہی الگ ہو کر وجود میں آیا تھا۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات سیاست میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کسی بھی حلقے میں ٹیلی فونک یا ویڈیو خطاب کرتے دکھائی نہیں دیے ،جس پر عوامی حلقوں کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ صوبے میں اب سیاسی حالات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی افراتفری کا یہ ماحول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات تک برقرار رہے گا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر عمران اسماعیل، خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان اور گورنر بلوچستان ظہور آغا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے تھے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے مطابق عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں خارجہ پالیسی کے محاذ پر اُونچ نیچ رہی۔ ان کے بقول سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر اختلافات بھی تھے۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بجائے وہ سیاسی مخالفین کو ہٹ کریں۔ اُن کے بقول اب شہباز شریف خود بیساکھیاں ڈھونڈ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگ رہے ہیں، وہ اب حکومت میں ہیں تو ڈلیور کر کے دکھائیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر چوہدری پرویز الہٰی کا انٹرویو دیکھیے وائس آف امریکہ کے اسد صہیب اور نوید نسیم کے ساتھ۔
تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آئینی مراحل کیا ہوں گے؟ جب ملک کا وزیرِ اعظم نہیں ہو گا تو پھر اہم فیصلے کون کرے گا؟ نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب کیسے ہو گا؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے قانونی اور پارلیمانی اُمور کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔
سیشن میں شریک طلبہ کے مطابق آرمی چیف کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ سیشن کے لیے دو گھنٹے مختص کیے گئے تھے، لیکن 12 بجے شروع ہونے والا یہ سیشن شام ساڑھے سات بجے تک جاری رہا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت ہو چکی ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ (ن) لیگ کے رُکن اسمبلی نے لاہور میں پوسٹر لگائے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کے اعلان کے بعد بڑھتے ہوئے سیاسی درجۂ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیرِ اعظم خود میدان میں اُترے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ روس اور یوکرین سے مختلف اشیا اور اجناس درآمد کرتے ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ترین گروپ نے سیاسی صورتِ حال میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اپوزیشن کی ممکنہ عدمِ اعتماد کی تحریک پر غور ہوا۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پیر کو حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی ہے جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی تمام آپشنز کھلے رکھنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ صرف غیر ضروری درآمدات کم کرنے کے لیے لایا گیا ہے تاکہ تجارتی خسارے میں کمی لائی جا سکے۔
مزید لوڈ کریں