رسائی کے لنکس

پرویز الہٰی کی پی ٹی آئی میں شمولیت؛ 'یہ دل کا نہیں حالات کا فیصلہ ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی منگل کی شام اپنے حامیوں کے ہمراہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملے تو یہ صرف رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ نئے سیاسی راستے کا انتخاب تھا۔

چوہدری پرویز الہٰی اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان پنجاب اسمبلی نے عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کا باضابطہ طور پر اعلان کیا۔

چوہدری پرویز الہیٰ کی پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اننگز شروع کرنے کے فیصلے کو ماہرین مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

کیا پرویز الہٰی نے کسی جانب سے 'اشارہ' ملنے پر تحریکِ انصاف میں ضم ہونے کا اعلان کیا یا یہ اُن کا ذاتی فیصلہ ہے؟ پنجاب کی سیاست پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا چوہدری پرویز الہٰی عمران خان کے ساتھ چل سکیں گے؟ کیا اُنہیں پی ٹی آئی کا صدر بنایا جائے گا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو منگل کی شام عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں ہونے والی اس اہم سیاسی پیش رفت کے بعد اُٹھائے جا رہے ہیں۔

بعض ماہرین اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الہٰی کی فی الحال اسٹیبلشمنٹ سے دُور عمران خان سے قربتوں پر بھی سوال بھی اُٹھا رہے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ بظاہر چوہدری پرویز الہٰی کا ذاتی فیصلہ ہے کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت عمران خان سے دُور ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور اگر وہ پارٹی کے صدر بنتے ہیں تو وہ چاہیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کے تعلقات بہتر ہوں۔

کیا عمران خان اور پرویز الہٰی ساتھ چل سکیں گے؟

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور پرویز الہٰی کےماضی میں تعلقات اتنے خوش گوار نہیں رہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کےد ورِ حکومت میں جب پرویز الہٰی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی تھے تو عمران خان انہیں پنجاب کا سب سے بڑا 'ڈاکو' قرار دیتے رہے ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کے دورِ اقتدار کے دوران ایک انٹرویو میں پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ چلا رہی تھی۔

ماضی کے الزامات اور اختلافات کے بعد اب دونوں سیاست 'ایک پیج' پر ہیں لیکن سہیل وڑائچ کے خیال میں عمران خان اور چوہدری پرویز الہٰی کی طرزِ سیاست میں بہت فرق ہے۔

اُن کے بقول عمران خان پاپولر سیاست کرتے ہیں جب کہ چوہدری پرویز الہٰی 'ڈرائنگ روم' کی سیاست کرتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ گو کہ چوہدری پرویز الہٰی کے پاس کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں تھی، لیکن اُن کی خاندانی سیاست بہت مضبوط تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی ایک قد آور سیاسی شخصیت کے علاوہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی رہ چکے ہیں۔ لہذٰا یہ تحریکِ انصاف کے لیے تو اچھا ہے، لیکن پرویز الہٰی کے لیے ایک بہت بڑا فیصلہ ہے کیوں کہ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا تحریکِ انصاف کے لوگ چوہدری پرویز الہٰی کو 'ہضم' کر پائیں گے۔

سلمان غنی کے خیال میں اتنی بڑی شخصیت کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر عمران خان کو بھی پریس کانفرنس میں موجود ہونا چاہیے تھا۔

منگل کو اس اہم پیش رفت سے قبل مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری پرویز الہٰی کی بنیادی رُکنیت منسوخ کرتے ہوئے اُنہیں پارٹی سے فارغ کر دیا تھا۔

پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار چوہدری برادران میں پھوٹ کو اُن کے خاندان کے لیےناقابلِ تلافی نقصان قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ برس اپریل میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے دوران یک جان دو قالب سمجھے جانے والے گجرات کے چوہدری برادران کے درمیان دُوریاں سامنے آئی تھیں۔پرویز الہٰی اور اُن کے صاحبزادے مونس الہیٰ نے اس موقع پر عمران خان کا ساتھ دیا تھا جب کہ چوہدری شجاعت حسین اور اُن کے صاحبزادوں نے حکمراں اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا تھا۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس سے قبل تحریکِ انصاف نے جاوید ہاشمی کو بھی پارٹی کا صدر بنایا تھا، لیکن سب جانتے ہیں کہ فیصلہ سازی کا اختیار پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے پاس ہی ہے۔

سلمان غنی کے بقول چوہدری پرویز الہٰی کو تحریکِ انصاف میں شامل کرنے پر عمران خان کے شدید تحفظات تھے اور اسی طرح پرویز الہٰی بھی عمران خان کے طرزِ سیاست سے کھل کر اختلاف کرتے رہے ہیں۔

'دونوں کا اکٹھے چلنا مشکل ہے'

سہیل وڑائچ کے مطابق "ان میں سے ایک پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتے ہیں اُوپر سے اشارہ لیتے ہیں، ایک اپنی آزادانہ سیاست کرتے ہیں، اس لیے دونوں میں بہت فرق ہے اور دونوں کا اکٹھے چلنا بہت مشکل ہے۔"

تحریکِ انصاف کے اندر اس پیش رفت پر تحفظات کے سوال پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ فوری طور پر تو تحریکِ انصاف کے اندر اس کا ردِعمل نہیں آئے گا، لیکن آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر سے آوازیں اُٹھ سکتی ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی اپنی جماعت میں آزادانہ فیصلے کرتے تھے، لیکن اب وہ ایک دوسری پارٹی کے ڈسپلن پر چلنے کے پابند ہوں گے جو بظاہر ان کے لیے مشکل ہو گا۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ چوہدری پرویز الہٰی کا ذاتی نہیں بلکہ اُن کے صاحبزادے مونس الہیٰ کی مرضی اُن پر غالب آ گئی ہے۔

ان کے بقول، پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی سفر کا آغاز چوہدری پرویز الہٰی کے دل کا فیصلہ نہیں بلکہ حالات کی وجہ سے وہ یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

'پرویز الہٰی عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب لانے کی کوشش کریں گے'

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کو قریب لانے کی کوشش ضرور کریں گے۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی ماضی میں بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں، لہذٰا وہ چاہیں گے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی دُوریاں کم ہوں۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی کی دوستی یا دُشمنی مستقل نہیں ہوتی۔جب سے چوہدری پرویز الہٰی نے عمران خان کا ساتھ دیا ہے اس کے بعد سے ہی ان کے قریبی لوگوں کے خلاف کیسز اور ان کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ لہذٰا یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ کس حد تک پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کو قریب لانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اُن کے بقول ایک وقت میں اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح تھی کہ عمران خان کی پارٹی کو مضبوط کیا جائے، لیکن اب ایک طرح سے پی ٹی آئی زیرِ عتاب ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو پھر چوہدری پرویز الہٰی کے لیے بھی کچھ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

پنجاب کی سیاست میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟

سلمان غنی کہتے ہیں کہ گو کہ گجرات اور منڈی بہاؤ الدین میں مسلم لیگ (ق) کا ووٹ بینک موجود ہے، لیکن 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق)، پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے ہی نشستیں جیتی تھی۔

اُن کے بقول وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست کا محور پنجاب رہا ہے اور وہ پی ٹی آئی کے مرکزی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے خواہاں ہیں۔

XS
SM
MD
LG