نواز شریف کے ایوان میں داخل ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ’دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے عمران خان کے خلاف بھی نعرے لگائے جب کہ تحریکِ انصاف کے اراکین نواز شریف کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
پنجاب اور سندھ میں حکومت سازی اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر اُمیدواروں کی نامزدگیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 4 میں کہا گیا ہے کہ صدارت کے لیے انتخاب اس عہدے پر فائز صدر کی مدت ختم ہونے کے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم سے کم 30 دن قبل کرایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر اراکین کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ کامیاب اُمیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
مذہبی جماعتوں کو عرصہ دراز سے کور کرنے والے سینئر صحافی سبوخ سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیا کہ میرے خیال میں مولانا فضل الرحمان نے ابتدا میں جارحانہ انداز اس لیے اختیار کیا تھا تاکہ ان کی کچھ سیٹوں میں اضافہ ہو سکے کیوں کہ اس وقت ان کے بیٹے سمیت کچھ نشستوں کے نتائج آنا باقی تھے ۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان طے پایا ہے کہ صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر کا عہدہ پیپلز پارٹی جب کہ سندھ اور بلوچستان کے گورنر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے جاری مذاکرات میں بہت سے معاملات طے پا چکے ہیں اور ایک معاہدے کا ڈرافٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں، تاہم پی ٹی آئی بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔
18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 91 میں بھی ترامیم کی گئیں جس میں صدرِ پاکستان کو پابند کیا گیا کہ وہ 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے۔