Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
یہ وقاص کا آبائی گھر ہے۔ یہی وہ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، شادی ہوئی اور آج آخری سفر بھی یہی سے ہوا۔ پی آئی اے کی پرواز 8303 سے آنے والے وقاص اکیلے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ندا، دس سالہ بیٹی آئمہ، سات سالہ بیٹا عالیان بھی شریک سفر تھے۔
اس جہاز میں سوار بہت سے افراد کے اہل خانہ کا یہی کہنا تھا کہ ان کے پیارے اس عید پر اپنے گھر سرپرائز دینے آرہے تھے۔ کیوں کہ کرونا کے باعث فلائٹ آپریشن کئی ہفتوں بعد بحال ہوا تھا۔
کہاں کے سماجی فاصلے، کہاں کے ماسک اور دوسری حفاظتی پابندیاں؟ ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اپنی خو نہ چھوڑیں گے اور عید کی تیاریاں اسی طرح کریں گے جیسے ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
کراچی پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔ البتہ لواحقین کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ واقعہ بچوں کی غفلت کا شاخسانہ لگتا ہے۔
میرے والد کی عمر 82 سال تھی۔ جب ہم انہیں اسپتال لے کر گئے تو ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ وہ ہوش و حواس میں تھے۔ کرونا کے آئی سی یو میں جانے کے لیے وہ خود بستر سے اٹھ کر وہیل چیئر پر گئے اور ہمیں کچھ ضروری ہدایات بھی دیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔
وہ دکان دار جو رمضان کا سارا سال انتظار کرتے تھے کہ اس ماہ وہ کوئی اسٹال لگائیں یا کوئی بھی مال بیچیں گے تو خوب منافع ہو گا۔ وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔ نہ جانے ان کا گزارہ کیسے ہو رہا ہو گا؟
کرونا وائرس کے ماحول میں صحافی بھی فرنٹ لائن ورکرز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں متعدد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ عالمی وبا کے دوران صحافی کن حالات میں کام کر رہے ہیں اور انہیں کیا مشکلات درپیش ہیں؟ جانتے ہیں سدرہ ڈار کی ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
مبصرین کے مطابق کئی میڈیا ہاؤسز کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تین سے چار ماہ کی تاخیر ہو رہی ہے جس سے صحافی اور دیگر اسٹاف ذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک برس صحافیوں کے لیے سب سے مشکل برس رہا تو بے جا نہ ہوگا۔
کراچی میں رواں برس رمضان کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث شہر میں لاک ڈاؤن ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے کاروبار بند رکھنے کی بھی ہدایت۔ جس کی وجہ سے سڑک کنارے افطار کا اہتمام دکھائی نہیں دے رہا۔ ان اقدامات پر شہری کیا کہتے ہیں؟ دیکھیے سدرہ ڈار کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں اِن دنوں کئی افراد دفتر کا کام گھروں سےکر رہے ہیں۔ بیشتر پاکستانیوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ وائس آف امریکہ نے 'ورک فرام ہوم' کرنے والے بعض ایسے ہی افراد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کا یہ تجربہ کیسا رہا اور اُنہیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھوک اور غربت کا ہے۔ اور اسی وجہ سے گھروں میں لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔
فیصل ایدھی میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد سے ان کی والدہ بلقیس ایدھی بیٹے کی صحت سے متعلق خاصی فکر مند ہیں۔ وبا کے ان دنوں میں ایدھی خاندان اور ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار کس طرح کام کر رہے ہیں؟ ہماری نمائندہ سدرہ ڈار نے اس بارے میں بلقیس ایدھی سے بات چیت کی ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث لاک ڈاؤن کئی افراد کے روزگار کی بندش کا سبب بن گیا ہے۔ ایسے میں بہت سی فلاحی تنظیمیں متاثرین کو راشن فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن کراچی کی ایک فیملی نے اس سے بھی زیادہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہ خاندان کیسے اُن لوگوں کی مدد کر رہا ہے؟ دیکھیے سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ یہ بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں کہ کون مجبوری میں نکلا ہے اور کون شوقیہ۔ ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا کچھ مناسب نہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کے ایک قبرستان میں کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے جگہ مخصوص کی گئی ہے جہاں صرف چار افراد میت کی تدفین کرتے ہیں۔ کرونا سے مرنے والوں کی تدفین کا احوال جانیے ایک گورکن کی زبانی۔
پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف مریضوں کا علاج کرنے والے معالجین اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اپنے کام مصروف ہیں۔ وہیں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرنے والا عملہ بھی ہر وقت کرونا وائرس کے خوف میں جی رہا ہے۔
عباس علی کے مطابق جن لوگوں نے یہ کام شروع کیا ان کے انتقال کے بعد نئی نسل اس کام میں نہیں آئی جبکہ کچھ لوگ واپس ایران چلے گئے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے باعث متاثرہ افراد کی مدد کے لیے راشن کی تقسیم جاری ہے۔ کراچی کی ایک سماجی تنظیم کے رضاکار اقلیتی برادری میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ رضاکاروں کے مطابق راشن کی تقسیم میں عموماً غیر مسلم نظر انداز ہوجاتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے اس کمیونٹی کو اپنا ہدف بنایا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث جاری لاک ڈاؤن کے باوجود صحافیوں کو خبروں کی تلاش میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ملیے کراچی کے ایک ایسے ہی صحافی سے جنہیں کرونا کے شبہے میں اپنا ٹیسٹ کرانا پڑا۔ انہیں یہ ضرورت کیوں پیش آئی اور ٹیسٹ کیسے ہوا؟ جانیے اس رپورٹ میں
ڈاکٹروں کا ایک نیٹ ورک 'صحت کہانی' کے نام سے لوگوں کو کرونا وائرس اور دیگر امراض سے متعلق آن لائن مفت مشورے دے رہا ہے۔ اس نیٹ ورک کی بانی ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں ان کا مقصد ٹیلی میڈیسن کے ذریعے لوگوں کو آسانی فراہم کرنا ہے۔
مزید لوڈ کریں