عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
صحافی مدثر نارو کی گمشدگی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ گمشدہ صحافی نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ انہیں لاپتا کر دیا جائے۔ ان کے اہلِ خانہ کو سن کر وزیرِ اعظم سمیت اس موقع پر موجود تمام افراد شرمندہ ہوئے۔
وزیرِ اعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی حکام کو اس بارے میں ہدایات دی ہیں کہ مدثر نارو کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے، مدثر کے اہلِ خانہ نے وزیرِاعظم کے ان احکامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ملک کے معاملات میں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ریاست انتہا پسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے کو تیار نہیں ہے جب کہ علما اس معاملے میں قوانین پر عمل نہ ہونے کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔
’نیشنل انڈونمنٹ فار ڈیموکریسی‘ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک جعلی خط شئیر کیا جا رہا ہے، جو کہا جا رہا ہے کہ این ای ڈی کے وائس پریذیڈنٹ اور امریکہ کے سفارت خانہ کی طرف سے تحریر کیا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر غلط معلومات ہیں اس میں غلط لوگو، جعلی دستخط اور تحریری کی غلطیاں موجود ہیں۔
صحافیوں نے جرنلسٹ پروٹیکشن قانون کو بہتر قانون قرار دیا ہے لیکن بعض صحافی اس قانون کی شق چھ پر اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ سینئر صحافی اقبال خٹک کہتے ہیں قانون میں شامل شق چھ صحافیوں کو خوفزدہ کرنے یا خاموش کرانے کا ذریعہ بنے گی۔
رانا شمیم نے کہا کہ ان کا جو بیانِ حلفی اخبار میں چھپا وہ ابھی تک دیکھا بھی نہیں۔ اخبار نے خبر چھاپنے کے بعد ان سے رابطہ کیا تھا۔ ان کا بیانِ حلفی بند تھا پتا نہیں کس نے ان کو دے دیا۔ انہوں نے ان کو بیانِ حلفی کی کاپی نہیں دی۔
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ اراضی پر تجارتی عمارات کے حوالے سے کیس کی سماعت میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروائی جا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا جائے۔
ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کے خلاف رائل کورٹ آف لندن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ملک ریاض اور ان کا بیٹے مالی و تجارتی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی طرف سے خرچ کیے گئے 22.8 ارب روپ میں سے 4.8 ارب روپے، وزارتِ دفاع کے 3.2 ارب روپوں میں سے ڈیڑھ ارب روپے اور سب سے زیادہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بے ضابطگی دیکھنے میں آئی۔
صحافی احمد نورانی کی جاری کی جانے والی آڈیو کی فرانزک کرنے والی کمپنی ’گیرٹ ڈسکوری‘ کا کہنا ہے کہ ایک شخص کی طرف سے انہیں کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ کمپنی کے لوگوں کی زندگیاں خطرہ میں ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق گریڈ 21 کے افسر حماد شمیمی نے سول سرونٹ رولز 2020 کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے خلاف ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ثنااللہ عباسی معاملے کی تحقیقات کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق کہ جبری گم شدگی نہ صرف بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ایسا جرم ہے جس میں ریاستی حکام کسی بھی شخص کو حراست میں رکھنے کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ایک پاپولر فیصلہ ہے لیکن اس تمام عمل کے رولز بننا باقی ہیں اور ان کی مدد سے ہی یہ عمل مکمل ہو سکے گا۔
مریم نواز نے کہا ہے کہ ثاقب نثار سامنے آئیں گے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کو جواب دیں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس اپنے مظالم اور نا انصافی کا کوئی جواب نہیں ہے۔
پاکستان میں آج کل حکومتی وزرا اور الیکشن کمیشن میں ٹھنی ہوئی ہے اور معاملہ ہے الیکشن میں ووٹنگ مشین کے استعمال کا۔ اپوزیشن بھی حکومت کی متعارف کردہ ووٹنگ مشین کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہ ووٹنگ مشین کتنی محفوظ ہے اور اپوزیشن اس پر کیوں معترض ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق بیانِ حلفی کی اشاعت کے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج کی سماعت کا تفصیلی احوال بتا رہے ہیں اسلام آباد سے عاصم علی رانا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا ہماری عدالت کے ججز کسی سے ہدایت لیتے ہیں؟ کیا آپ نے اس بات کی تحقیق کی کہ بیان حلفی لندن میں کیوں نوٹرائز کرایا گیا؟
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس رانا شمیم کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے وہ اتنے بیوقوف نہیں کہ جو بات بند کمرے میں بھی نہ ہو سکے وہ کھلے عام کریں۔
دنیا بھر میں چودہ نومبر کو عالمی یومِ ذیابیطس منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تین کروڑ 29 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔
معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت روپے کی گرتی قیمت کو سہارا دینے کے لیے اسٹیٹ بینک یا حکومت کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ۔ غیر یقینی کی کیفیت ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
مزید لوڈ کریں