Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
بی این پی مرکزی رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے رکن ثناء بلوچ نے خواتین کی رہائی کی تصدیق کر تے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ آج اُنہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ انہیں خضدار میں رکھا گیا تھا۔ خضدار سے رہائی کے بعد انہیں آواران میں اپنے گھروں میں پہنچا دیا گیا ہے۔
بم ڈسپوزل حکام کا کہنا ہے دھماکہ مقامی ساختہ بم سے کیا گیا جس میں نو کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکے کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا اور موقع پر شواہد جمع کئے گئے۔
جامعہ بلوچستان کے طالب علموں کو خفیہ کیمروں کی فوٹیج کے ذریعے ہراساں کرنے کا معاملہ دو ہفتے قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ نے اس اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی تھیں۔
بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع سے جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ، لورالائی، ژوب، سبی اور خضدار کے راستوں سے آزادی مارچ میں شرکت کے لئے روانہ ہو چکی ہے۔
طلبہ کو ہراساں کرنے کے کیس میں یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر نے ادارے کے چار ملازمین کو بر طرف کر دیا ہے۔
وائس چانسلر کے مستعفی ہونے کی وجہ یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والے اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنانا بتایا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ خفیہ کیمرے لگا کر طالب علموں کی جرائم پیشہ افراد کی طرح نگرانی کرنا سخت قابل اعتراض بات ہے۔
جیل وارڈن چیچنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین قیدیوں کی نگرانی پر مامور تھیں۔ گزشتہ رات قیدی خواتین نے ان کے گلے میں پھندا ڈال کر انہیں ہلاک کر دیا۔
مولانا محمد حنیف جمعیت علما اسلام فضل الرحمان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں تین ماہ کے دوران افغان طالبان کے قریب سمجھے جانے والے یہ ساتویں عالم دین ہیں، جن کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت نے تحریری معاہدے پر مکمل عمل در آمد نہیں کیا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پہلا دھماکہ خروٹ چوک کے علاقے میں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے دفتر میں ہوا۔ جب دھماکے کے بعد ریسکو ورکرز، پولیس اور میڈیا کے کارکن پہنچے تو دوسرا دھماکہ ہو گیا۔
ایچ آر سی پی کے مطابق گمشدگیوں پر جامع اعداد و شمار کی کمی اس بات کی عکاس ہے کہ سنگین مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایچ آر سی پی کے سینئر رکن آئی اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی 'نوگو ایریاز' ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کو بھی یہاں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
دھماکا خیز مواد امام مسجد کے ممبر کے نیچے نصب کیا گیا تھا جس کے پھٹنے سے ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے پی ٹی ایم کے کارکنوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
ڈی آئی جی، عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ ایک بڑے عرصے کے بعد دہشت گردوں نے ایک بار پھر شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنایا۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ شہر میں گشت کرنے والی پولیس کی ایک گاڑی جب مرکزی علاقے باچا خان چوک پہنچی، اس دوران فائر بریگیڈ کے دفتر کے سامنے سے گزرتے وقت گاڑی کے قریب زور دار دھماکہ ہوا۔
سول اسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ زخمیوں میں مزید دو افراد کی حالت تشویشاک ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر لسبیلہ، مہراللہ بادینی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ کراچی سے مسافر لے کر تربت جانے والی کوچ قومی شاہراہ پر وندر بازار کے قریب سامنے سے آنے والی ہائی روف سوزوکی وین سے ٹکرا گئی
مزید لوڈ کریں