زلمے خلیل زاد کا یہ بیان افغانستان کی حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے لیے 21 رکنی ٹیم کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے. مذاکراتی ٹیم کی قیادت افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ معصوم استنکزئی کریں گے۔
فریقین کے مطابق قیدیوں کی رہائی کا عمل 31 مارچ سے شروع ہوگا۔ طالبان قیدیوں کی شناخت کے لیے وفد بگرام جیل جائے گا۔ افغان حکومت کے مطابق ابتدائی طور پر 100 قیدی رہا ہوں گے۔
ماہرین صحت اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے نمٹنے لیے جنوبی ایشیا کے ممالک کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی مدد اور باہمی اقدامات کرنا ہوں گے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کو افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے رویے پر مایوسی ہوئی ہے۔
انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ دنیا کو کرونا وائرس کی صورت میں ایک مشترکہ حریف کا سامنا ہے جسے قومیت، نسل، دھڑے یا کسی عقیدے کی کوئی پروا نہیں اور جو بڑی شدت سے حملہ آور ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ویڈیو لنک کے ذریعے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت ہوئی۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق قیدیوں کو رہا کرنا امن عمل اور لوگوں کی بھلائی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
مارک ایسپر نے ایک ایسے وقت پاکستانی فوج کے سربراہ سے بات کی ہے جب افغان امن معاہدے پر طے شدہ منصوبے کے تحت ابھی پیش رفت ہونا باقی ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ وقت آگیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیون کی رہائی فوری طور پر عمل میں آئے۔ دونوں جانب سے تکنیکی ٹیمیں قیدیوں کی جلد رہائی کے لیے تکنیکی اقدامات کر سکتی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل کرونا وائرس کو 'چینی وائرس' قرار دیا تھا جب کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو متعدد بار اسے 'ووہان وائرس' قرار دیے چکے ہیں۔ کرونا وائرس سب سے پہلے چین کی شہر ووہان میں سامنے آیا تھا۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف طالبان کے عزم کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ امن معاہدے کے تحت اگر طالبان نے اپنے وعدے پورے کیے تو امریکہ بھی اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
افغانستان کے مقامی چینل طلوع نیوز سے بدھ کو گفتگو کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ ایک سو دنوں کے اندر مکمل ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے مطابق طالبان نے اتحادی فورسز اور شہروں میں حملے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن وہ دیہی علاقوں میں افغان شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل ہونا چاہیے۔
وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے کسی بھی اقدام کا شدید مخالف ہے۔ امریکہ ایک متحد اور خود مختار افغانستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور افغانستان میں امن کے لیے کوشاں ہے۔
ضلع مہمند میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ پاک افغان سرحد پر تجارتی راستے کھولنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے فروغ سے پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں
امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 18 ماہ تک مذاکرات جاری رہے۔ افغان جنگ کے فریقین امن معاہدہ پر رضامند ہیں اور اس معاہدے پر باضابطہ دستخط کی تقریب 29 فروری کو ہو گی۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان سیاسی نمائندوں کو عدم استحکام کا سبب بننے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے اور اُنہیں ایک متوازی حکومت کی تشکیل سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان کی طرف سے تاحال امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پانے والے دفاعی معاہدے پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ لیکن اس سے قبل پاکستانی حکام بھارت کی طرف سے جدید دفاعی نظام کے حصول پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر تشدد میں کمی کے معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو وہ 29 فروری کے امن معاہدے پر اپنا نام شامل کرا سکتے ہیں۔ طالبان وفد کو امریکہ بلانے کے سوال پر صدر نے کہا کہ اس سے متعلق انہوں نے ابھی نہیں سوچا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا افغانستان کے مسئلے کا صرف ایک چوتھائی حل ہے۔ بقیہ 75 فی صد حل بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے افغانستان سے متعلق جتنے تقاضے کیے تھے، پاکستان نے وہ پورے کردیے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات بھی گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کی نذر ہو رہے ہیں اور اب دونوں ملکوں کو باہمی معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔
مزید لوڈ کریں