پاکستان کے وزارت اطلاعات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی تردید کے لئے ایک نیا ٹویٹر ہینڈل متعارف کروایا ہے۔
معروف بھارتی صحافی سدھانند دھومے نے لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے محض تین ہفتے بعد ہی غیر ازدواجی جنسی تعلق کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ ادھر ’دہلی کمیشن فار ویمن‘ کی چئیرپرسن نے کہا ہے کہ ’’اب شادی کے بندھن کا کیا تقدس رہ گیا ہے؟‘‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان مہاجرین اور پاکستانی بنگالیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس پر ان کے ایک اتحادی اختر مینگل خوش نہیں ہیں۔
کسی بھی صحافی کا سابقہ وزیراعظم کو انٹرویو کرنے پر حراست میں لینے یا بغاوت کا الزام لگانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے، صحافت جرم نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں معطل ہونے کے بعد سعودی عرب سے ڈیل کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ ٹویٹر کے ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’’جس ملک کا اپنا صرف ایک سال کا بجٹ خسارہ پاکستان کے کل قرضوں کے برابر ہو، وہ پاکستان کے قرضے کیسے اتار سکتا ہے‘‘
سوشل میڈیا پر صارفین گورنر ہاؤس کی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں جن میں عوام کی جانب سے پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ دیکھا جا سکتا ہے۔
میڈیا کسی بھی بیانئے کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور پاکستان کے طاقتور حلقے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی سوچ کو میڈیا میں شامل کیا جائے۔
جمائمہ گولڈ سمتھ نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ یہ ناقابل دفاع اور مایوس کن فیصلہ ہے کہ نئے پاکستان کی حکومت نے عاطف میاں کو صرف اس لئے پیچھے ہٹنے کے لئے کہہ دیا کہ وہ احمدی عقیدہ رکھتے ہیں۔ جمائمہ نے لکھا کہ پاکستان کے بانی نے ایک احمدی کو اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا
آئین سازی اور جمہوریت کی جو بنیاد ہے، وہ تو ہے ہی اختلاف رائے، تغیر جمہوریت کا لازم و ملزوم حصہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی راہنما شہلا رضا نے لکھا کہ فواد چوہدری اور فیاض چوہان جیسے ترجمان ہوں تو اپوزیشن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ترجمان جو وضاحت کریں گے وہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہو گی۔
فاٹا کے ایک قصبے میں جاری احتجاج تو سیکیورٹی حکام اور دھرنے کے قائدین کے درمیان مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد فوج اور قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ کے درمیان الزامات پر منبی ٹویٹس کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
’’مجھے اور میرے خاندان کو میرے تحفظ کی پریشانی ہے، مجھے کہا گیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلو۔ مجھے فیس بک بند کر دینا پڑا ہے، کیوںکہ مجھے بہت زیادہ دھمکیوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق، معمولی نوعیت کے تنازعے کو ہوا دیکر مذہبی ایشو بنا کر احمدیہ عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا۔ تھانے دار نے بتایا ہے کہ ’’اس وقت علاقے میں صورت حال قابو میں ہے۔ پولیس افسران موقع پر موجود ہیں اور دونوں گروہوں نے مسجدوں میں پر امن طریقے سے نماز جمعہ ادا کی‘‘
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے، تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ ’’ہم نے احتجاج کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ہمیں کوئی خوف نہیں ہے۔ خوف ان کو ہے جنہوں نے پاکستان کی دولت کو لوٹا‘‘
اس شو کے کلپس بدھ کو پاکستانی سوشل میڈیا پر مسلسل شئیر ہوتے رہے اور صارفین اس پر محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ تبصرے بھی کرتے رہے
آزادی احساسِ ذمہ داری کے بغیر ناپائیدار ہے اور معاشرے کی اقلیتوں اور کمزور طبقات تک اگر آزادی کے ثمرات نہ پہنچیں تو یہ نامکمل ہے
مذاکرے کا اہتمام ایک تھینک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا جب کہ مقررین میں فلوریڈا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد تقی اور امریکہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی شامل تھے۔
ان دنوں تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین حکومت سازی کے لیے درکار نمبر پورے کرنے کے لیے نومنتخب آزاد ارکان کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں سوشل میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز بنی ہوئی ہیں۔
ابتحاج عظیم خان نے لکھا کہ مولانا فیس بک پر نواز شریف کو بلاک کر رہے ہیں اور عمران خان کو ان بلاک کر کے فرینڈ ریکویسٹ بھیج رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں