پاکستان کی سپريم کورٹ نے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے لاہور میں واقع گھر کے سامنے واقع سڑک کو دوبارہ پارک بنانے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ نے اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کے سامنے پارک اکھاڑ کر سڑک بنانے پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل زاہد اختر زمان عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے سے استفسار کیا کہ انہوں نے کس کے کہنے پر پارک اکھاڑ کر سڑک بنائی؟
زاہد اختر زمان نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار نے پارکنگ کے لیے سڑک کھلی کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو اسحاق ڈار نے تحریری طور پر درخواست دی تھی؟ ڈی جی نے کہا کہ انہیں اسحاق ڈار نے فون کرکے سڑک بنانے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ڈی جی ایل ڈی اے سے کہا کہ آپ کس طرح کے افسر ہیں؟ وزیر کےکہنے پر پارک اکھاڑ دیا۔ آپ کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ یہاں 'فیورٹ ازم 'نہیں چلنے دوں گا۔ آپ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین کے تحت کارروائی بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے سے استفسار کیا کہ اب بتائیں آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس پر زاہد اختر زمان نے کہا کہ انہیں معاف کردیا جائے۔ اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ذیلی ادارے کو اسحاق ڈار کے گھر کے قریب پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کا کہا تھا۔
ڈی جی ایل ڈی اے نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں معاف کر دیں اور مقدمہ نیب کو نہ بھیجیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہڑتال کر دیں۔ مقدمہ نیب کوجاتا ہے تو سب ہڑتال کردیتے ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ وہ معافی چاہتے ہیں۔ ان سےغلطی ہو گئی ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے یہ کیس نیب کو نہ بھیجا تو پھر یہ روایت بن سکتی ہے۔ آپ پارک کو پہلے اصلی شکل میں بحال کریں۔ پھر دیکھیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی جی ایل ڈی اے کو حکم دیا کہ حلف نامے کے ساتھ تمام ریکارڈ لے کر آئیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایل ڈی اے کو 10 روز میں پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پارک کی جگہ سڑک بنانے اور سڑک کی جگہ دوبارہ پارک بنانے کا خرچہ آپ خود دیں یا اسحاق ڈار سے لیں۔
سابق وفاقی وزیرِ خزانہ کا گھر لاہور کے علاقے گلبرگ تھری میں ہے۔ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ جب پارک کو توڑ کر سڑک بنائی جارہی تھی تو انہوں نے حکام کو کئی درخواستیں دیں لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی۔