پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ کی منظوری کے بغیر کام کرنے والی 12 غیر رجسٹرڈ انٹرنینشل این جی اوز کے دفاتر بند کردیے گئے ہیں۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نجیب الرحمان بگوی کی جانب سے جاری احکامات میں بتایا گیا ہے کہ جن انٹرنینشل این جی اوز کی رجسٹریشن کی درخواست وزارتِ داخلہ نے مسترد کردی ہے وہ اب مزید کام نہیں کرسکیں گی۔
وفاقی پولیس کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ایس ایس پی نے زونل ایس پیز کو احکامات جاری کیے تھے کہ 12 این جی اوز وزارتِ داخلہ کی کیلئرنس کے بغیر اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔
احکامات میں زونل ایس پیز کو این جی اوز کے دفاتر سیل کر کے رپورٹ 7 مئی تک جمع کرانے کا حکم دیا تھا جو جمع کرادی گئی ہے۔
وفاقی پولیس کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق جن این جی اوز کی سرگرمیوں کو روکا گیا ہے ان میں ضیا الامت فاونڈیشن یوکے، ورلڈ ویجیٹیبل سینٹر چائنا، الخیر فاونڈیشن یوکے، سینٹرل ایشیا ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان، سیفر ورلڈ یوکے، سینٹر فار انٹرنیشنل انٹرپرائز یو ایس اے، انٹرنیشنل الرٹ یوکے، ڈینیش رفیوجی ڈنمارک، فاونڈیشن اوپن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ پاکستان، آکسفم، نوویب نیدرلینڈز اور اکیومین فنڈ انٹرنیشنل شامل ہیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے گزشتہ کچھ عرصے سے مبینہ طور پر غیر فعال اور گھوسٹ این جی اوز کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے این جی اوز کے آڈٹ سمیت دیگر معاملات دیکھے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسلام آباد انتظامیہ نے قانونی تقاضے پوری نہ کرنے اور غیر فعال رہنے والی 121 این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کی تھی۔
اس وقت کے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے 2015ء میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز کی رجسٹریشن نہیں ہے جبکہ یہ سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ملک میں کام کررہی ہیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بھی پاکستان میں کام کرنے والی قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے تمام معاملات کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
جنوری میں ترجمان نیب کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ نیب کو کچھ شکایات موصول ہوئی تھیں، جس کی بنیاد پر این جی اوز اور آئی این جی اوز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ترجمان نیب نے کہا تھا کہ تمام این جی اوز اور آئی این جی اوز کی جانچ پڑتال کی جائے گی کیونکہ ان پر نہ صرف غلط استعمال بلکہ غلط طریقے سے فنڈنگ کا الزام بھی لگتا ہے۔
رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئی این جی اوز کا معاملہ اس وقت زیرِ غور آیا تھا جب سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ زیادہ تر آئی این جی اوز تعلیم، صحت، قانون اور پولیس اصلاحات جیسے مختلف شعبوں کے لیے دیے گئے فنڈز کو غلط استعمال کر رہی ہیں۔
سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے آئی این جی اوز کے کام کو قانونی دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن ان کے بعد ان کی پارٹی کے رہنما اور موجودہ وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے تمام اداروں کو دوبارہ کام کرنے اجازت دے دی تھی۔
احسن اقبال نے کہا تھا کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کرنا نہیں چاہتی اور آئی این جی اوز کو صفائی کے لیے موقع اور وقت دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی این جی اوز کی رجسٹریش کے طریقۂ کار میں کچھ رکاوٹیں حائل تھیں جنہیں وزارتِ داخلہ نے ختم کردیا ہے۔ آئی این جی اوز کو اپنی رجسٹریشن کی منسوخی کے خلاف 90 روز میں اپیل دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا جب کہ قوانین کے تحت اس طرح کی تنظیموں کا 60 دن کے اندر ملک چھوڑنا ضروری تھا۔