شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کی بات چیت 2019ء میں بھی جاری رہے گی۔
منگل کو نئے سال کے آغاز کے موقع پر اپنی پہلی نشری تقریر میں کم جونگ ان نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہر وقت ملنے کے لیے تیار ہیں تاکہ "کوئی ایسا نتیجہ برآمد ہوسکے جس کا پوری دنیا خیرمقدم کرے۔"
لیکن اپنے خطاب میں کم جونگ ان نے امریکہ کو خبردار بھی کیا کہ وہ پابندیاں لگا کر اور دباؤ ڈال کر شمالی کوریا کے صبر کا امتحان نہ لے۔
انہوں نے کہا اگر امریکہ نے وعدہ خلافی جاری رکھی اور یک طرفہ مطالبات اور دباؤ اور پابندیوں کے ذریعے شمالی کورین کے صبر کا امتحان لینا جاری رکھا تو ان کا ملک دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔
اپنے خطاب میں شمالی کوریا کے سربراہ نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی مشترکہ فوجی مشقیں معطل رکھےاور وہاں اسٹریٹجک ہتھیار منتقل نہ کرے۔
انہوں نے جنوبی کوریا کی قیادت کو بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید مضبوط بنانے کی پیش کش کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے سرحدی علاقے کائیسونگ میں واقع مشترکہ صنعتی مرکز بحال کرنے اور شمالی کوریا کے سیاحتی مقام ڈائمنڈ ماؤنٹین جنوبی کورین سیاحوں کے لیے کھولنے پر تیار ہے۔
یہ دونوں اقدامات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک جنوبی کوریا شمالی کوریا پر عائد پابندیاں انہیں اٹھالیتا۔
کم جونگ ان کی اس تقریر پر تجزیہ کاروں نے ملا جلا ردِ عمل ظاہر کیا ہے جب کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی طرف سے تاحال اس پر کوئی باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہےکہ پیانگ یانگ امریکہ اور جنوبی کوریا کے تعلقات میں دوریاں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مسلسل یہ تاثر دے رہا ہے کہ تعلقات میں بہتری لانا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔
شمالی کوریا کی حکومت وزرا یا اس سے نیچے کی سطح کے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بجائے کم جونگ ان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ایک اور سربراہی ملاقات کے خواہش مند ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ وہ براہِ راست صدر ٹرمپ سے بات چیت کرکے امریکہ سے زیادہ رعایتیں لے سکتے ہیں۔
شمالی کورین حکام گزشتہ چند ماہ سے مسلسل امریکی حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس نے پیانگ یانگ کی جانب سے اپنے جوہری اور میزائل تجربات معطل کرنے کے یک طرفہ اقدام کا مناسب جواب نہیں دیا ہے۔
شمالی کوریا کا مطالبہ ہے کہ مزید کسی اقدام سے قبل امریکہ اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرے تاکہ بات چیت کے لیے فضا مزید سازگار ہوسکے۔
لیکن امریکی حکام کا موقف ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے یا اس جانب ٹھوس پیش رفت تک پیانگ یانگ پر پابندیاں نافذ رہیں گی۔