پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی جانب سے آئین شکنی سے متعلق فیصلے میں پیرا 66 پڑھتے ہی 2000 کے اخبار کی وہ سرخی ذہن میں گھومنے لگی۔ جس میں سو معصوم بچوں کے سیریل کلر جاوید اقبال کو لاہور کی عدالت نے یہ سزا سنائی تھی کہ ملزم کو مقتول بچوں کے والدین کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
جج اللہ بخش رانجھا نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مقدمے میں سزائے موت پانے والے دونوں مجرم اسی طرح موت کے مستحق ہیں جس بے دردی سے انہوں نے معصوم بچوں کو قتل کیا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مجرموں کے جسموں کے سو ٹکڑے کر کے انہیں بھی اسی طرح تیزاب کے ڈرم میں ڈالا جائے۔ جس طرح یہ معصوم بچوں کو قتل کرنے کے بعد کرتے تھے۔
خیال رہے کہ سنہ 2000 میں لاہور شہر میں جاوید اقبال نامی سیریل کلر سامنے آیا تھا۔ جس نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے سو سے زائد بچوں کو قتل کیا۔ اور ان کے جسم کے ٹکڑے کر کے لاشیں تیزاب کے ڈرم میں ڈالیں۔
لیکن اس سزا پر عمل درآمد ہونے سے قبل ہی جاوید اقبال اور اس کا ساتھی ساجد 2001 میں پراسرار حالات میں کوٹ لکھپت جیل میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ پولیس نے دونوں واقعات کو خودکشی قرار دیتے ہوئے کیس بند کردیا۔ اور یوں یہ قصہ تمام ہوا۔
'ضیاء الحق دور میں یہ روایت رہی ہے'
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں قتل اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر مارشل لا دور میں عوامی مقامات پرپھانسی دینے کی روایت موجود رہی ہے۔
سابق صدر ضیاء الحق کے مارشل کے دور میں 1977 میں لاہور سے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والے 12 سالہ اعجاز کے قاتل کو سرعام پھانسی دی گئی۔
تین ماہ میں فوجی عدالتوں نے ٹرائل مکمل کیا اور جرم ثابت ہونے پر ملوث مجرموں کو عوام کے سامنے پھانسی دینے کا حکم دیا گیا۔
تینوں مجرموں کو 22 مارچ 1978 کو مشہور جلاد تارا مسیح نے سر عام پھانسی دی۔
اس کے بعد 1988 میں میانوالی میں خاتون کو قتل کرنے والے دوست محمد اورساہیوال میں بدنام زمانہ ڈاکو لالو کو سر عام پھانسی دی گئی۔
اسی طرح 1988 میں ہی فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ اور ملتان کے قاسم باغ میں بھی سر عام پھانسیاں دی جاتی رہی ہیں۔ تاہم یہ تمام واقعات فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں رونما ہوئے۔ لہذٰا اس کی کوئی نظیر جمہوری ادوار سمیت کسی اور آمر کے دور میں بھی نہیں ملتی۔
2010 میں سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں کو ہجوم کی جانب سے وحشیانہ تشدد کے بعد ہلاکت پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بیان دیا تھا کہ اس مقدمے میں ملوث مجرموں کو اسی جگہ لٹکایا جائے گا جہاں پر مقتول بھائیوں کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا۔ تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
گزشتہ سال قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی زینب کے مجرم کو بھی سرعام پھانسی دینے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔
عوامی مقام پر سزا سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟
سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قانون میں سرعام پھانسی دینے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہادت اعوان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی قوانین کی دفعہ 22 کے تحت کسی بھی مجرم کو اس قانون کے تحت سزائے موت دینے کے طریقہ کار اور جگہ کے تعین کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔
ان کے بقول اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں رائج جیل قوانین کی سیکشن 354 کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد صرف ضلعی جیل میں ہی ہو سکتا ہے۔
شہادت اعوان ایڈوکیٹ نے مزید بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار شمیم اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل دور کنی بینچ یہ قرار دے چکا ہے کہ عوامی مقامات پر پھانسی کی سزا قانون کے برخلاف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی قوانین اس بات کی اجازت تو دیتے ہیں کہ جس جگہ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا ہے اسی مقام پر مقدمہ سنا جائے۔ اگرچہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر کسی ملزم کو سزائے موت دی جاتی ہے تو اس کے مقام کے تعین کا فیصلہ حکومت کا کام ہے، ججز کا نہیں۔
کیا پرویز مشرف کو پیرا 66 کے تحت سزا دی جا سکتی ہے؟
پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کے پیرا 66 میں جسٹس وقار سیٹھ نے لکھا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیں قانون کے تحت سزا دی جائے۔ لیکن اگر وہ سزا سے قبل انتقال کرجائیں تو ان کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک گھسیٹ کر لایا جائے اور تین دن تک لٹکایا جائے۔
پیرا 67 میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگرچہ سزا پر عمل درآمد کا یہ طریقہ کار کہیں بیان نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ کیس اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ لہذٰا اگر سزا پر عمل درآمد سے قبل مجرم انتقال کر جائے تو یہ سوال جنم لے گا کہ اب سزا پر عمل درآمد کیسے کرایا جائے۔
شہادت اعوان کا کہنا ہے کہ خصوصی عدلت کے فیصلے میں شامل پیرا 66 تین ججز میں سے ایک جج جسٹس وقار سیٹھ کی رائے ہے جس سے دیگر دو ججز نے اتفاق نہیں کیا۔
اس طرح یہ اقلیتی حکم ہے اور اسے فیصلے کا حصہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم ابھی ملزم کے پاس اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا سپریم کورٹ کا پلیٹ فارم بھی باقی ہے جس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اس حکم پر حتمی فیصلہ دینا ہے ۔ اگر اس فیصلے میں بھی سزائے موت برقرار رہتی ہے تو بھی صدر مملکت کے پاس کسی بھی مجرم کی رحم کی اپیل پر اسے معاف کرنے یا رد کرنے کا اختیار موجود ہے۔
اگرچہ جدید دنیا کے قوانین یا عدالتی فیصلوں میں تو پیرا 66 جیسے فیصلے کی نظیر تو نہیں ملتی۔ لیکن برطانیہ میں 17 ویں صدی کے آمر جنرل اولیور کرامویل کو اس نوعیت کی سزا دی گئی تھی۔ بادشاہ کا تخت الٹنے کی پاداش میں انتقال کے تین سال بعد ان کی لاش کو قبر سے نکال کر علامتی طور پر پھانسی دی گئی تھی۔